16 جولائی کوسنگت اکیڈمی کی ماہانہ علمی نشست ’’سنگت پوہ و زانت ‘‘پروفیشنل اکیڈمی میں سیکریٹری جنرل عابد میر کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔ کالجوں یونیورسٹیوں کے طالب علم، اور دانشوروں، شاعروں، ادیبوں ڈاکٹروں پروفیسروں کی بڑی تعداد اِس نشست میں موجود تھی۔
پروگرام کا پہلا حصہ حسب معمول سوشل سائنسز پر تھا۔ اور یہ حصہ بہت بھرپور تھا۔
’’گلوبلائزیشن ‘‘ کے انتہائی وسیع اور پیچیدہ موضوع پرکیچ کے سکالربختیار اسماعیل نے تقریر کی۔ بہت واضح سوچ کے ساتھ اور شستہ انگلش میں۔ سپیکر کا کہنا تھا کہ گلوبلائزیشن ایک مسلسل پراسیس ہے جو ما قبل تاریخ سے آج تک جاری و ساری ہے۔ اب تو خیر اُس کی رفتار بہت تیز ہوچکی ہے۔ کمیونی کیشن کے جدید وسائل کے ذریعے سے ایک حصے کا ادب، زبان، لفظ، خیالات، نئی دریافتیں الغرض سب کچھ بہت تیزی اور آسانی کے ساتھ دوسرے حصے کو منتقل ہو رہا ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے دنیا کو عملاً گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے جہاں ہم اپنی جگہ پہ بیٹھے بیٹھے پوری دنیا سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ گلوبلائزیشن نے ہمارے کلچر کو بھی متاثر کیا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ گلوبلائیزیشن ازل سے ابدتک ایک نہ رکنے والا پراسیس رہا ہے۔ اس کی اچھائیاں بھی ہیں، برائیاں بھی۔ ہم اس تیز رفتار بپھرے دریافت کی رَو کو روک نہیں سکتے۔کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی خرابیوں سے بچ بچا کر اس کی اچھائیوں کو اپنایا جائے۔ گو کہ ایسا کرنا بھی سو فیصد ممکن نہیں ہے۔
بعد ازاں سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ ایک سوال کے جواب میں بختیار صاحب نے کہا کہ گلوبلائزیشن بلاشبہ زبانوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ان کا یہ مشاہدہ بالکل درست ہے کہ زبان کوئی بھی خالص نہیں ہوتی، جو زبان جس قدر لچک دار ہو گی، اس کے مستقبل میں زندہ رہنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ وسیع ہوں گے۔ باقی، زبانوں کی معدومیت اور بڑھوتری کا عمل جاری رہتاہے۔ یو این کے مطابق اب بھی ہر سال دو زبانیں ختم ہو رہی ہیں، لیکن وہیں یواین اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ جس زبان کا ایک بھی بولنے والا موجود ہے، اس کی ترویج لازم ہے، اور یہ گلوبلائیزیشن کی وجہ سے ہے۔
سنگت پوہ زانت کا دوسرا موضوع امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے صدام کے عراق پر حملے کی کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ تھی۔سکندر جیلانی نے’’ چل کوٹ رپورٹ ‘‘پراپنا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے بیک گراؤنڈ پر جامع روشنی ڈالی۔ اس نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے عراق پر حملہ، صدام کی موت اور تباہی بربادی والی جنگ کے بارے میں چل کوٹ کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی 2016کو 150صفحات پر مشتمل جامع رپورٹ سامنے آئی۔ جس پر چل کوٹ کی سربراہی میں 7لوگوں کی کونسل کام کر رہی تھی۔
چل کوٹ رپورٹ میں یہ بات سامنے آگئی ہے کہ عراق جنگ خلیجی تیل پر قبضہ کی ایک بے مقصد جنگ تھی،مستی اور خرمستی کی جنگ۔ جس میں یہ غلط اطلاع فراہم کی گئی تھی کہ عراق کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں جو وہ یہاں سے کہیں اور منتقل کر رہا ہے۔اس الزام کو بنیاد بنا کر برطانیہ اور امریکہ نے اتحادیوں کے ساتھ مل کرعراق پر حملہ کیا تھا۔ اس جنگ کے نتائج اور محرکات جاننے کے لیے چل کوٹ کی سربراہی میں 2009میں ایک کونسل قائم کی گئی تھی۔ یہ رپورٹ 2011کو تیار ہو گئی تھی لیکن اس میں پیچیدگیاں اور بہت سے آفیسران کے عدم تعاون کی وجہ سے اسے تاخیر سے 2016کو پیش کیا گیا۔
برطانوی کمیشن کی اس رپورٹ میں ٹونی بلیئر کو اس نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ دنیا بھر میں ہلچل مچا دینے والی ا س رپورٹ سے بعید نہیں ہے کہ برطانیہ کے اُس وقت کے وزیراعظم ٹونی بلیئر پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلے۔
سکندر جیلانی کی اِس پر مغز اور بھرپر سوال جوابی سیشن کے بعد پروگرام کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔ اس میں عابدہ رحمان نے اپنا افسانہ پڑھ کر سنایا۔ جہاں اس افسانے پر مصنفہ نے بھرپور تعریف اور داد وصول کی،وہیں اس پر معمولی سی تنقید بھی سامنے آئی۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی نے کہا کہ افسانہ خواتین کے مسائل اور ان کی جدوجہد کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح سکندر جیلانی اور جاوید اختر نے افسانے پر اپنے تاثرات بتائے ۔اسلام آباد اور لاہور سے آئے بلوچ طلبا اس خوبصورت افسانے کی کاپیاں اپنے احباب کو پڑھانے ساتھ لے گئے۔
پروگرام میں جہاں لیکچر دیے گئے اور افسانہ پڑھا گیا ، وہیں اس میں شاعری بھی شامل تھی ۔ شاہ محمود شکیب نے فارسی میں شاعری ، اپنے مخصوص اندازِ بیاں میں پیش کی ۔اسی طرح کافی عرصے سے سنگت کے پروگراموں میں غیر حاضر خاران کے ساتھی،ضیا شفیع کو سٹیج پر بلا کر اس کی بلوچی شاعری سے حاضرین کومحظوظ کروایا گیا۔مستنگ کے انجم غریب شاہ نے براہوئی اور اردو میں غزلیں نظمیں سنا کر داد وصول کی۔
آخر میں عبدالستار ایدھی کی رحلت پرتعزیتی قرارداد منظور کی گئی۔ اسی طرح آرٹ وکلچر کے خدمتگذاراور سیاسی ورکرمحترم ظفر لنڈ کے قتل تعزیت اور مذمت کا اظہار کیا گیا۔ ایک اور قرارداد میں قندیل نامی ماڈل کے غیرت کے نام پر وحشیانہ قتل کے خلاف مذمتی قراردادمنظور کی گئی۔ چوتھی حسبِ معمول قراردادبلوچستان کے سیاسی مسائل سے متعلق پیش کی گئی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے، اسے سیاسی طور پر ہی حل کیا جائے۔