سمو راج ونڈ تحریک کے سٹڈی سرکل کی میٹنگ 25جولائی کو شام4 بجے دوست بلوچستان آرگنائزیشن کے دفترمیں منعقد ہوئی۔ سمو راج ونڈ تحریک کی جنرل سیکرٹری نور بانو نے صدارت کی۔ میٹنگ کے شرکا میں درج ذیل اراکین شامل تھے۔
شرکاکی روایتی تعارف کے بعد ونڈ تحریک کی بنیاد، یعنی ’مستیں توکلی کے فلسفے پر بات شروع ہوئی۔ اس مباحثے میں اِس بات پر بحث کی گئی کہ سمو کون تھی ؟ مست کون تھا؟ مست کاعشق پوری کائنات تک کس طرح اور کیونکروسیع ہو گیا تھا۔ مست ہر چیز کو سمو کے حوالے سے دیکھتا تھاکہ یہ وطن سمو کا ہے تو اس سے محبت ضروری ہے۔ اس میں آسانیاں دو، اس میں راستے بناؤ تا کہ میری سمو کو دشوار گزار راستوں سے نا گزرنا پڑے ۔تب ہی اسی دور میں بااثر خدا ترس لوگوں سے پہاڑکاٹ کر راستہ بنوایا۔مست نے سمو ہی کی وجہ سے عورت ذات کو سمو کی رعیت کہا اور پھر عورت کے’’ ونڈ‘‘ کا مطالبہ کرنے لگا ،ہر چیز میں ، ہر سہولت اور ہر خوشی میں۔اور مست کے اسی فلسفے سے ونڈ کا لفظ لے کر ہم نے اپنی تحریک سمو راج ونڈ کے نام میں شامل کر دیا کہ ہم اس معاشرے سے اپنا ونڈ لیں گے۔
بحث میں یہ بات بھی ہوئی کہ یہ کوئی عام عشق نہیں تھا ۔ یہ تو بہت پاک صاف عشق تھا۔ یہ اس دور کا عشق ہے کہ مست اور سمو کے الگ الگ قبیلوں سے ہونے کے باوجود نا صرف ان دو قبیلوں بلکہ دوسرے قبائل کے لوگ بھی مست اور سمو کوعزت و احترام دیتے تھے ۔
ایک یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ ہمارے خطے میں ہر وادی کا لہجہ، روایتیں اور تہذیبی صورت ایک فرق اور امتیاز کے ساتھ موجود ہے۔لیکن ایک بات مسلم ہے اور وہ یہ کہ مشرقی بلوچستان میں سب اس بات پر متفق ہیں کہ مست ایک بہت بڑے ولی تھے ، بزرگ تھے۔ اس علاقے میں آپ سمو کو صرف سمو کہہ کر کبھی نہیں پکار سکتے بلکہ آپ کو ہر حال میں ان کو ’سمو مائی‘ہی کہنا پڑے گا۔ یعنی اتنی عزت اور اتنا احترام ہے ان کے لیے، وہاں کے لوگوں کے دلوں میں۔ اس کلاسیکل عشق میں کوئی جسمانی تصور نہیں تھا۔اس وقت کے معتبروں،سرداروں اور عام انسانوں کے مرد، بچے، بوڑھے اور عورتیں مست کو ولی مانتے ہوئے ان کی خدمت کیا کرتے تھے اور دعا کے لیے کہتے تھے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ مست ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں سمو سے درخواست کروں گا کہ وہ دعا کرے گی۔
آخر میں اس بات پہ بھی اتفاق ہوا کہ اٹھارویں صدی کے اپنے مسائل تھے ،ہمارے دور کے اپنے مسائل ہیں اور ہم نے اپنے مسائل کے مطابق کام کرنا ہے۔ مست کا پیغام ہمارے لیے صرف ایک روشنی ہے جس میں ہم نے اس معاشرے سے اپنا ’’ونڈ ‘‘وصول کرنا ہے۔ اس لیے اصل مقصد بھول کر مست اور سمو کے عشق کو اپنے پاؤں کی بیڑی نہ بنایا جائے، اس کے جادو کی قید کے قیدی بننے سے خود کو بچانا ہوگا ، پیغام لو ، روشنی لو اور آگے بڑھو تاکہ ہم اس نظام کو بدلیں ، بدلنے کی کوشش کریں۔ جھگڑا مرد اور عورت کا بھی نہیں ہے کہ اس نظام کے تحت تو مرد بھی مشکل میں ہے لیکن عورت کا استحصال زیادہ ہو رہا ہے ،اس لیے ہم عورت کی بات کرتے ہیں۔
اس کے بعد ایک قرار داد پیش ہوئی جو کہ سب ساتھیوں نے منظور کی ۔ وہ قرار داد تھی کہ ، بلوچستان میں جب تک صنعت کاری نہیں ہوتی، جب تک کارخانے نہیں لگتے، اس وقت تک بالخصوص عورتوں کی بے روزگاری کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اور اس وقت تک وہ باورچی خانے سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ باورچی خانہ ،جوعورت کی نجات کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے‘‘۔
آخر میں سب دوستوں کی رضامندی سے عابدہ رحمان سیکرٹری اطلاعات چنی گئیں۔اگلی میٹنگ اگست کے آخر میں ہونا قرار پائی۔
*********
بلوچستان ادبی فورم

منٹس برائے اطلاع ممبران بلوچستان ادبی فورم‘ ایڈیٹرز کمیٹی اجلاس 30 جولائی 2016
بلوچستان ادبی فورم میں شامل براہوئی اور بلوچی کے صحافتی اداروں روزنامہ اور ہفت روزہ تلار کوئٹہ‘ نوشکی(براہوئی)‘ پندرہ روزہ پڑو قلات(براہوئی)‘ تاکبند بلسم حب چوکی( براہوئی اور بلوچی)‘ ماہنامہ سنگت کوئٹہ(اردو‘ بلوچی اور براہوئی)‘ تاکبند توجیل نذر آباد(بلوچی‘ براہوئی)‘ سہ ماہی رژن کیچ مکران (بلوچی) اور ماہنامہ گروشک کوئٹہ کا ا پہلا تعارفی اجلاس مورخہ 30 جولائی 2016 کو سہ پہر 5 بجے بلوچی اکیڈیمی میں منعقد ہوا جس میں مندرجہ بالا اداروں کے نمائندے ‘ ڈاکٹر شاہ محمد مری ‘ عبدالوحید زہیر(سنگت)‘ عبدالرازق ابابکی(تلار)‘ سعید نور (پڑو)‘ نوید لانگو(گروشک)‘ عاشق رحیم (بلسم‘ توجیل‘ رژن) ‘ حسن ناصر ( بلوچستان ادبی فورم ) نے شرکت کی۔اجلاس کی صدارت ڈاکٹر لیاقت سنی آرگنائزر بلوچستان ادبی فورم نے کی۔ اجلاس میں درج ذیل نقاط پر تفصیلی بحث مباحثہ ہوا۔
1۔بلوچستان ادبی فورم‘ ایڈیٹرز کمیٹی( BAFEC )کے اغراض و مقاصد
بلوچستان ادبی فورم میں شامل صحافتی اداروں کا ایڈیٹرز نے ایڈیٹرز کونسل کے اغراض او مقاصد بیان کئے جو درج ذیل ہیں۔
1۔یہ کمیٹی ایک دوسرے کے ساتھ کوارڈنیشن بڑھانے کے لئے ہوگی۔ اور ایک دوسرے کے خلاف کبھی کسی بھی منفی عمل کا حصہ نہیں بنیگی۔
2۔یہ کمیٹی فورم کے اغراض او مقاصد جو فروغ زبان اور ادب کے حوالے سے ہیں انکی تشکیل اور بہتری کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریگی۔
3۔اجلاس میں طے پایا کہ یہ کمیٹی ایک ریویو رپورٹ بنائیگی جو کمیٹی میں شامل تما م رسائل و جرائد میں شائع ہوگا۔ کہ کس کس میگزین اور رسائل میں کس کس عنوانات پر کیا چیزیں چھپ چکی ہیں۔
4۔اجلاس میں یہ طے پایا کہ کمیٹی میں شامل صحافتی اداروں کی باہمی تعلق اور سنگتی کو مزید مضبوط بنانے کے لئے ہررسالہ ایک اشتہار چھاپے گا جس میں تما م اداروں (میگزین اور رسائل) کا نام اور انکے مدیران کا نام درج ہونگے۔
2۔بلوچستان ادبی فورم‘ ایڈیٹرز کمیٹی( BAFEC )ضابطہ اخلاق
دوسرے ایجنڈے کے مطابق یہ فیصلہ ہوا
1۔کہ اس کمیٹی کو ایک الگ اور خود مختیار صحافتی ادارہ بنایا جائیگا۔ جو بلوچستان ادبی فورم سے ہٹ کر براہوئی اور بلوچی زبان میں ہونے والی صحافت کو ایک نیا شکل دینے کے لئے جدوجہد کریگا۔ مزید یہ کہ مستقبل قریب اس سنگتی کو ایک الگ نام دیا جائیگا۔
2۔اس ادارے کے ہر دو ماہ بعد اجلاس منعقد ہونگے۔
3۔اس ادارے کے لئے عبدالرازق ابابکی کو سیکریٹری کوارڈنیشن نامزد کر دیا گیا۔
4۔یہ ادارہ اپنی بساط کے مطابق چھپنے والے مضامین کی زبان اور املا کے حوالے سے آسانی پیدا کرنے کے لئے کوشش کریگا۔
3۔ قرار داد
اجلاس کے آخیر میں ایک قرارداد پیش کی گئی جو تمام ممبران نے منظور کر دی۔
’’گذشتہ دن کتاب اور پبلشنگ سے وابستہ علمی ‘ ادبی شخصیت کامریڈ واحد بلوچ کراچی جاتے ہوئے اغوا کر دیئے گئے۔ ریاست کے علم میں ہو یا نہ ہو‘ کسی بھی شہری کے اغوا ہونے اور اسے بازیاب کرنے کی ساری ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے۔ چونکہ سندھ میں لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری وہاں کی پولیس اور رینجرز مل کر پوری کر رہے ہیں اس لئے ہم آئی جی پولیس اور ڈی جی رینجر کراچی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس علم دوست انسان کو فی الفور رہا کیا جائے۔
اور اگر اس اغوا میں حکومتی کارندوں کا ہاتھ ہے تو اس غیر آئینی طریقے کو فورا ختم کیا جائے اور آئین و قانون کے مطابق کامریڈ واحد بلوچ کو عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے