دیکھو! دیکھو! وہ سورج کی آخری کرن بھی پہاڑ کے پیچھے چھپ گئی ’ٹونی‘ نے اپنی پونی ٹیل ہلاتے ہوئے اور چپڑ چپڑ چیونگم چباتے ہوئے ’فری‘ سے کہا اور گھر جانے سے پہلے آخری نظر یوکلپٹس کے درخت پر ڈالی۔ خوبصورت سفید تنے اور چمکیلے پتوں والا یہ درخت ہمیشہ کی طرح اُسے خدا حافظ کہتا ہوا محسوس ہوا۔ جنگلی ناشپاتی کے درخت سے کچی ناشپاتی کھینچتے ہوئے وہ اپنے گھر کی طرف بھاگ پڑی۔ کیوں کہ امی کی طرف سے اُسے یہ تاکید تھی کہ جیسے ہی سورج غروب ہو۔ فوراً اپنے گھر کی راہ لو۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے جہاں اُس نے بے شمار پیار سمیٹا وہاں فری اور اس کے گھر والے بھی اُسے بے پناہ چاہتے تھے۔ وہ بھی فری کو اپنی دوست کم اور بہن زیادہ سمجھتی تھی اور اس کے گھر کو اپنا ہی گھر جان کر ہر شام فری کے ساتھ گزارتی۔ لیکن مغرب کے وقت جب پہاڑوں کے پیچھے سورج غروب ہوتا تو وہ اپنے گھر لوٹ آتی۔ کھانے کے بعد اور سونے سے پہلے اپنے امی ابو کے ساتھ ہلکی چہل قدمی اور پھر ٹی۔وی کا خبرنامہ دیکھنا اس کا معمول تھا۔ خبروں پر ساتھ ساتھ تبصرہ کرنا اور ابو سے سوالات کرتے رہنا اُس کی عادت تھی۔ کبھی کبھی اُسے پیار بھری ڈانٹ بھی سننے کو ملتی جب وہ ہوم ورک میں سُستی کا مظاہرہ کرتی۔ دراصل سکول کی پابند زندگی اُسے ایک آنکھ نہ بھاتی۔ وہ تو آزاد فضاؤں کی پنچھی تھی اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی۔ لیکن ہر صبح اَدھ کھلی آنکھوں کو پانی کے چھینٹے کی مدد سے کھولتے ہوئے۔ بددلی سے تیار ہوتے ہوئے اور ناشتے میں دودھ کا گلاس گلے سے بمشکل اتارتے ہوئے وہ بادل نخواستہ سکول کا رُخ کرتی۔ جہاں پہنچ کر ساری کسلمندی دور ہوجاتی اور وہ نونیؔ ، گلبدنؔ ، نازیؔ اور فریؔ کے ساتھ کھیلنا شروع کردیتی۔ وہ تمام ٹیچرز کی چہیتی تھی۔ اس کے اندر پارا بھرا ہوا تھا جو اُسے کہیں ٹک کر بیٹھنے نہ دیتا تھا۔ اپنی بڑی بڑی آنکھوں میں ذہانت اور شرارت کی چمک لیے ہوئے، بے تحاشا ہنستی ہوئی وہ لڑکی احساس دلاتی تھی کہ زندگی واقعی جئے جانے کے قابل ہے۔
شب و روز، ماہ و سال میں تبدیل ہوتے گئے۔ بچپن کی شرارتیں ختم تو نہ ہوئیں لیکن اَب انہوں نے اپنی شکل تبدیل کرلی۔
اب وہ کالج کی شوخ و چنچل لڑکی تھی جس کے اندر خود اعتمادی اُس کے ماں باپ کی دی گئی تربیت اور ماحول کی مرہونِ منت تھی۔ زندگی ایک لذیذ چاکلیٹ کی طرح تھی۔ جسے وہ کُتر کُتر کر لطف اندووز ہورہی تھی۔ خوبانی اور بادام کے شگوفے اُس کے لان ہی میں نہ کھلتے بلکہ اس کے رخساروں پر بھی اپنا رنگ جما رہے تھے اور لان کی ہری گھاس کا سبزی مائل عکس جب اُس کی کانچ جیسی آنکھوں میں لہراتا تو شہد سا گُھلتا ہوا محسوس ہوتا۔ اب تو امی کو بھی کبھی کبھی محسوس ہوتا کہ جس جگہ وہ بیٹھی ہے وہاں روشنی سی ہوجاتی ہے اور وہ یہ سوچ کر اداس ہوجاتیں کہ یہ روشنی جب کسی اور کے گھر کو منور کرے گی تو اُن کے گھر میں کہیں۔۔۔ لیکن اس سے آگے وہ نہ سوچ سکیں اور ان کی آنکھیں نمکین پانی سے دھندلاجاتیں۔ اس کے ساتھ ہی دو ملائم رخسار چھو کر انہیں احساس دلا جاتے کہ ایک ننھی پری اس وقت ان پر مہربان ہو کر اپنے پیار کا احساس دلارہی ہے۔ ٹونی! میری بیٹی، میری کلی کہہ کر وہ اُسے گلے سے لگا لیتیں اور ہمیشہ کی طرح مسرور ہو کر اتنی آنکھیں موندھ لیتیں۔ اُن کا بس نہیں چلتا تھا کہ ٹونی کا یہ روپ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں میں چھپا لیں۔ اُن کے دل سے دعا نکلتی ’’یارب میری بیٹی کے چہرے کے کھلتے گلاب ہمیشہ یونہی مہکتے رہیں۔‘‘لیکن انسان کی ہر خواہش اگر اپنی آسانی سے تکمیل پذیر ہونے لگے اور ہر دعا بر آئے تو انسان عالم بالا کا منکر ہوجائے۔
اُس صبح بھی ہمیشہ کی طرح سورج اپنے وقت پر طلوع ہوا تھا۔ اس نے کسلمندی سے اپنی موندھی آنکھیں کھولی تھیں۔ دو تین کروٹیں لے کر بھرپور انگڑائی لی تھی۔ گنگناتے ہوئے کالج کی تیاری کی تھی امی کے گلے میں بانہیں ڈالی تھیں۔ ابو کے سامنے چپت لگوانے کے لیے سرجھکایا تھا۔ اپنی پالتو مانو کا کان مروڑا تھا۔ ڈرائیور سے اُس کی بیمار بیٹی کا حال پوچھا تھا جس کے جواب میں ڈرائیور نے اس کی طرف احسان مندی سے دیکھتے ہوئے اُس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا اور ہمیشہ کی طرح اُس نے بشاشت سے کالج کی راہ لی تھی اور پھر ریسس میں اپنی سہیلی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر کینٹین کا رُخ کیا تھا۔ ابھی وہ کینٹین میں داخل ہی ہوئی تھیں کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا لیکن اس کا شور سُننے کے لیے اس کے حواس ختم ہوچکے تھے۔
اس کے امی ابو آج بھی سورج غروب ہوتے وقت ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ دیکھو! سورج کی آخری کرن بھی پہاڑ کے پیچھے چھپ گئی ہے۔ ٹونی اب بڑی ہوگئی ہے نا۔ اس لیے بات نہیں مانتی اور کبھی وقت پر گھر نہیں آتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ۔۔۔۔ اور اس کے بعد وہ اس کے پچپن کا ایک ایک لمحہ دوبارہ جیتے ہیں اور جب آخری لمحے تک پہنچتے ہیں تو دونوں سسکتے ہوئے ایک دوسرے کے سہارے ٹونی کے کمرے میں جاتے ہیں اور امی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے کمرے میں ایک الوہی سی روشنی ہے، تب وہ خوش ہو کر اپنے شوہر سے کہتی ہیں۔۔۔۔
’’میں سوچتی تھی کہ ٹونی جب گھر سے چلی جائے گی تو اپنی روشنی بھی ساتھ لے جائے گی مگر دیکھو! پگلی اپنی روشنی چھوڑ گئی۔ اُسے ہمارا کتنا خیال تھا۔۔۔۔ اور دونوں ایک دوسرے سے منہ پھیر کر اپنے آنسو پینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘