دن کے سفید چہرے پر
ایک کہانی لکھنے کے لیے
جب میں نے ظلمت شب سے
روشنائی مانگی
تو ہر رنگ مجھ پر
قہقہہ لگا کر ہنسا
میں نے اپنی انگلیاں تراش کر
قلم بنائے
ہر ورق
اپنے رگ و ریشے سے سینچا سجایا
پھر اک دن
افلاک کی مجلس میں پہنچی
زہرہ پر اقبال رومی اور ٹالسٹائی
نطشے اور گوئٹے کے ساتھ
محو گفتگو ملے
میں حیران ہوئی
مریخ کی بجائے یہ سب
زہرہ پر موجود ہیں
یہ دیکھ کر شہر زاد کھلکھلا کر ہنسی
پھر میرا بازو پکڑ کر زمین کی سیر کو واپس لائی
جہاں مائی تاجاں کپاس کے پھولوں سے
اپنا کفن کات رہی تھی
اور کئی قیوم گدھ راج بنے
سیمیں بدن کی گھات میں
روحانیت کی پرتیں تلاش کر رہے تھے
نسیم صبح کی کترنیں لیرولیر
کوڑے کے ڈھیر پر پڑی تھیں
یہ دیکھ کر میں نے پوچھا
اے شہرزاد
کیا دکھلانے لائی ہو
وہ مسکائی اور کہا
سر پر لٹکتی تلوار
شاہکار کہانیاں لکھواتی ہے
یا نشتر جیسے
چھبتے احساسات
ان کہانیوں کو جنم دیتے ہیں
میں نے ہنس کر اسے الوداع کہا
اور ایک کہانی لکھنے بیٹھ گئی