دیکھو کوئی سایہ سیہ لبادے میں ابھی اس پنگوڑے کے پاس آیا تھا
میری نیند سے بوجھل ہوتی آنکھیں چوپٹ کھل گئیں
یہ سسکیوں کی آواز جو قلقل ہنسی میں بدل گئی ہے کہیں پاس ہی سے آ رہی ہے
کچرے میں دیکھو پھر کوئی ادھڑا ہوا بچہ تو نہیں ملا
میں خوش ہوں ، بہت مطمئین ہوں
اب انسانیت کی لاش کو کتے نہیں بھنبھوڑیں گے
اگرچہ وہ بلند بانگ آوازوں میں چلا رہے ہیں
ہم نے جنت پر تالا لگا دیا ہے
تم تخم حرام کو پناہ دے رہے ہو
گندگی کو عام کر رہے ہو
ہا ہا ہا میں نے ان کی جنت میں جانا ہی کب ہے
وہ سڑکوں پر پڑے کچلے بے گور و کفن لاشے
غسل دے کر بڑے احترام سے ان کے بکھرے بدن یکجا کئے اور مہکتی مٹی کے گھر تک پہنچا آیا
دیکھو وہ مسکرا رہے ہیں
یہی نہیں شادی کے منڈپ میں میری سینکڑوں بیٹیاں اپنے بابل کو دیکھ ان کے گلاب چہرے کیسے کھل اٹھے
اب کوئی ان کو دھتکار کر تو دیکھے میں ڈھال بن کر کھڑا رہا ہوں
مجھے الوداع کہنے آئی ہوئی ہیں
اب مجھے جانا ہی ہو گا
وہ ننھا لڑکا بہت دیر سے میرے انتظار میں ہے ،
میری بوڑھی آنکھیں اس کی نوخیز زندگی میں اجالے بکھیر نے کو بے تاب ہیں
وہ پھر سے تیز روشنی سے ملیں گی
سو میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔..
مگر یہ کیا ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد
اس کا پاکیزہ موٹے کھدر کے نیلے ملبوس میں لپٹا بدن سوٹ اور بوٹ والوں کے ہاتھ لگ گیا ہے
یہ جنازہ جو ہیلی کاپٹر سے اتارا جا رہا ہے
زمین پر کہیں دور بہت رہ جانے والے نقطوں کی مانند دکھائی دے رہے ہیں
ہزاروں ملگجے لباس والے جو اس کو پیارے تھے اپنے آنسو اس کے کاندھے پہ سر رکھ کر بہاتے تھے
ہاتھوں میں پھول اٹھائے منہ دیکھتے رہ گئے ہیں
تب ہی وہ جنت کو جاتے ہوئے فرشتوں کے جلو میں کف افسوس مل رہا ہے
کاش اس نے اپنا جسد خاکی جاہ و حشمت کے متوالوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی وصیت بھی کر دی ہوتی ۔