مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: 192
قیمت : 300 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
زندگی کے لگے بندھے فریم سے انسان کبھی کبھی اکتا جاتا ہے۔ اپنی ہڈیوں، مسلز، سوچوں ، نفسیات ، اپنی روٹین کو ایک فریم کے مطابق رکھتے رکھتے بہت تھک جاتا ہے۔تب وہ اس فریم سے ہٹ کر ایک بھر پور انگڑائی لینا چاہتا ہے اور تب سفر ضروری ہو جاتا ہے کہ جہاں انسان کھلی فضا میں لمبی لمبی سانسیں لے ۔ سبزے، خوشبو،اور مناظر کو اپنے اندر سمیٹ کرکچھ عرصے کے لیے پھر سے اس فریم میں بت بنے رہنے کی توانائی حاصل کرے۔
پیاسے بلوچستان کے مختلف پیاسے علاقوں کہ جہاں صرف مکران اور ماوند ہی کیا پورا بلوچستان ہی پسماندگی میں مساوات برقرار رکھے ہوئے ہے، سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب اپنے قاری کی انگلی تھامے اپنے ساتھ اس وسیع سمندر تک لے گئے کہ جس کی لہریں پاؤں کو چھو جائیں تووہ لہریں ہمیں ہماری طرف واپس لانے میں مدد کرتی ہیں۔ شہر کے شور، گرد، ہلا گلا سے دور سمندر کی آواز جب ہماری روح سے باتیں کرتی ہے تو ہمیں خیا ل آتا ہے کہ واقعی I need vitamin sea ۔ لکھاری خوبصورت لکھے تو قاری بلاشبہ اس سفر میں اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور اسی طرح لطف اندوز ہوتا ہے جیسے کہ نئے سفر کا وہ راہی خود ، لہٰذا ہم پر بھی سمندر کا وہ جادو اسی طرح چل چکا۔
لیکن کتاب کا سفر جوں جوں طے ہوتا گیا اور غریب مچھیروں کے حالاتِ زندگی، ان کے مسائل، صحت کے بارے میں پتہ چلتا گیا تو دکھ تو ہوا ہی لیکن حیرانی بھی ہوئی کہ اے سمندر تو کتنے دکھ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور تو نے کس کس ظلم کے راز اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے ہیں ۔۔۔؟ شاید اسی لیے تجھے مئی سے ستمبر تک جلال آجاتا ہے ۔۔۔اور شاید اسی لیے تو کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتا۔۔۔!!
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ پاکستان کے کل ساحل کا 80فی صد بلوچستان کاہے۔ پاکستان کی کل مچھلی کا ایک چوتھائی حصہ گوادر دیتا ہے۔ گوادر کی 80 فی صد آبادی مچھلی کی صنعت سے وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں طبقات نہیں لیکن ساحل پر ایسے سرمایہ دار ہیں کہ جن کی 20 سے 25 لانچیں ہوتی ہیں اور ساری محنت جو خلاصی یعنی ملاح، ماہی گیروں کی ہوتی ہے۔ کل رقم کا آدھ حصہ مالک بنا کسی محنت کے لیتا ہے اور آخر میں صرف ایک حصہ خلاصی اور ڈرائیور کا ہوتا ہے۔ غریب کی اولاد غریب ہی رہتی ہے اور یہ ماہی گیر غلام کی حیثیت سے مالکوں کے بیچ بکتا ہی رہتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ مالک کسی بھی وقت بلا وجہ فارغ کر سکتا ہے۔
350 اقسام کی مچھلیاں دینے والا ساحل، ایک لاکھ بارہ ہزار میٹرک ٹن مچھلی برآمد کرنے والے ساحل کے باسی آج بھی بھوکے ہیں! اور سیزن آف ہو تو ماہی گیروں کی سماجی و معاشی حالت پستی کی گہرائی تک گر جاتی ہے۔ ذہنی و نفسیاتی بیماریاں، شراب و ہیروئن کے عادی، پان خور۔۔۔! کس ترقی کی بات کی جا رہی ہے؟!
ایک اور دکھ کی بات جس سے گوادر کا ماہی گیر بری طرح دوچار ہے وہ غیر قانونی خونی ٹرالرز ہیں جیس کا net wire سمندر کی گہرائی تک جا کے مچھلیاں اور چھوٹی مچھلیاں تو کیا کہ انکے انڈوں کو ختم کر کے مچھلیوں کی پوری نسل ختم کر رہی ہے۔ گوادر کے سمندر کو مچھلی سے خالی کیا جا رہی ہے جو 30,000ماہی گیروں کو متاثر کر رہے ہیں اور جرم میں fisheries department خود بھی شامل ہے۔ صرف 2002میں کوریا، تائیوان اور چین کے 22 ٹرالرز نے یہ جرم کر کے غریب ماہی گیروں کے منہ کا نوالہ چھینا۔
صحت کا یہ حال کہ نہ کوئی لیڈی ڈاکٹر، نہ کوئی آپریشن تھیٹر،کچھ نہیں ۔ یہاں تک کہ آکسیجن سلنڈر تک نہیں۔
کشتی سازی کی صنعت کے لیے لکڑی بیرونِ ملک، کراچی اور بلوچستان کے اپنے کیکر سے حاصل کی جاتی ہے۔ صرف پسنی میں 70 سے 80 کشتی ساز ہیں جو سالانہ50 فٹ کی 12 لانچیں، اور 20 سے 20 فٹ کی80 لانچیں تیار کرتے ہیں۔ بحیرہ بلوچ کا سمندری روٹ مصروف ترین روٹس میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ساحل تجارت کی شاہراہ رہا ہے۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک رسی، مچھلی، کھجور وغیرہ کے بدلے مختلف اشیاکی درآمد ہوتی رہتی ہے۔
مری صاحب لکھتے ہیں کہ ساتویں، آٹھویں اور نویں صدی میں یہ ایک جانی پہچانی بندر گاہ تھی جو عرب مؤرخین کے ہاں ’’تیز‘‘ کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
گوادر میں شپ بریکنگ کی واحد صنعت تھی ،جس میں بیس ہزار مزدور کام کرتے تھے جو لوکل ڈسٹرکٹ کونسل اور بلوچستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بیس ملین روپے دیتی تھی لیکن اس صنعت کا گلا گھونٹ دیا گیا،لہٰذا اب وہاں کوئی صنعت نہیں۔
سڑکیں کسی بھی ملک کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اس کے بعد جس چیز کی باری آتی ہے، وہ ہے؛ مارکیٹ۔ لیکن ایک لاکھ بارہ ہزار ٹن مچھلی دینے والے ساحل کے لیے کوئی روڈ نہیں، کوئی مارکیٹ نہیں۔ اور غریب ماہی گیروں کی محنت پر سندھ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔
ماہی گیروں کے لیے کوئی ٹریڈ یونین نہیں، کوئی تربیتی ادارہ نہیں، ورکشاپ، سیمینار نہیں کہ جہاں ماہی گیروں کی تربیت ہو۔
گوادر بندرگاہ کا6 ستمبر 1958 میں اومان، اور پھر2002 میں چین کے ساتھ معاہدہ ہوا، پھر 16 ارب روپے کی لاگت سے تیار ہونے والی بندرگاہ پورٹ آف سنگا پور کے حوالے کر دی گئی۔
گوادر ڈیپ سی پورٹ جہاں تجارتی ٹریفک، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارت، کارگو کے عالمی معیار کی سہولتیں، انڈسٹریل اینڈ ایکسپورٹ ٹریننگ روٹ کا قیام اور آئل اینڈ ریفائننگ کی سہولتیں مہیا ہوں گی لیکن وہ تو ڈاکٹر صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ بنا وضو کے منصوبوں کا کیا حال ہوتا ہے!
سمو راج کے حوالے سے پڑھ کر خوشی ہوئی کہ وہاں کی عورت باقی بلوچستان کی نسبت ایک نسبتاً مضبوط پوزیشن پر ہے کہ لب لیا تو جاتا ہے لیکن وہ باپ نہیں کھاتا۔ زمین، جائیداد،زیور عورت ہی کی ملکیت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ طلاق کی صورت میں لب بھی عورت کے پاس آ جاتا ہے ۔ہاں مگر خلع لینے کی صورت میں لب سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔
برف کی سفید پوشاک اوڑھے پہاڑیوں کے بیچ وادی کے حیرت میں ڈالنے والے حسن کواپنے اندر سمیٹنے والا ٹولا کبھی ایک دوسرے کے ساتھ اور کبھی صرف اپنے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے اچانک سے ’اہم‘ بن جانے والے گوادر کی طرف ایک دفعہ پھر رواں دواں تھا۔
قلات کی تاریخ دہراتے ہوئے اور سنڈیمن کی قبر سے ہوتے ہوئے زیرو پوائنٹ پہنچے۔ مری صاحب کہتے ہیں کہ ’’ انسان خود کو ایک ہندسہ بنا کر ساری زندگی زیرو کو اپنے دائیں جانب گھسیٹ لانے کو پسینہ بہاتا رہا ہے مگر زیرو بد بخت تھرکتے پارے کے طرح دائیں بائیں مچلتا رہتا ہے اور ساتھ میں اپنے طلب گار کو بھی تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے۔ یہ مستقلًا دائیں جانب قیام نہیں کرتا، زیرو سب سے بڑا رقاص!‘‘
لیکن ڈاکٹر صاحب، کبھی کبھی تو زیرو لوگ ہندسوں کی تلاش میں بھی دنیا کے بڑے رقاص بن جاتے ہیں اور ہندسے بچارے تماشائی بن کر وہ رقص دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یہی کچھ ہو رہا ہے ’گوادر‘کے ہندسے کے ساتھ!!
350 سے زائد انواع کے میملز،65 سے زیادہ رینگنے والے، 185 انواع کے پرندوں والے ہنگول پارک جہاں mud volcanoes کے ہیڈ کوارٹر تھے، جو بے شمار اسباب سے زیرِ زمین پریشر بڑھ جانے کے بعد پھٹ پڑتے ہیں اور لاوے کی صورت بہنے لگتے ہیں geo exudate کی صورت میں اور میں یہ سوچ رہی تھی کہ جب ظلم و نا انصافی اپنے انتہا کو پہنچے، جب استحصال چار سو اپنے پر پھیلائے، جب بھوک، اور غربت کا پریشر بڑھ جائے تو اس کے exudate کو کیا کہیں گے۔۔۔؟؟
مسافروں کے ساتھ ساتھ قاری بھی دریائے ہنگول کی ہم نوائی میں، ریوڑ کی بجتی گھنٹیوں، چرواہے کی شفیلی کے سر میں، اونٹوں کی قطار کا حصہ بن کر فطرت کی خوب صورتی کو سراہتے ہوئے تالیاں بجاتے رہے اور فطرت کے حسن سے گنگ سڑک بالآخر ہنگلاج ماتا مندر تک لے گئی۔
’’ جے ماتا کی !‘‘
مری صاحب کہتے ہیں کہ Mythology یونانی لفظ Myth سے نکلا ہے، مطلب داستان، فوک کہانی۔ اور یہ کہ بلوچ مائتھالوجی ہماری قوم کی تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے ، یا یہ کہ فطرت، تاریخ اور رواجوں کی وضاحت کے لیے ہزاروں برس سے جو کہانیاں بنی گئیں ،اس کا مجموعہ مائتھالوجی ہے اور یہ بھی کہ س سکا مذہب سے کسی طرح کاتعلق نہیں۔
شاہ محمد مری صاحب نے شروع ہی سے کہہ دیا تھاکہ مائتھالوجی کے مزے لو، سوال نا کرو۔ سو میں نے طے کر لیا کہ جو جیسا ہے ویسے کی بنیاد پر دیکھو ، محسوس کرو اور اس کے مزے لو اور سچی بات ہے کہ جب سوالوں کوذہن میں جگہ نا دے کر ماتھالوجی کو دیکھو تو زیادہ لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری تہذیب ، ہماری تخلیقی تاریخ اور ادب آرٹ کا ورثہ ہیں۔
ستی ( پاروتی) اور شیو کی داستان سناتے ہوئے مری صاحب اپنے قاری کو بھولے نہیں بلکہ اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے وہ مندر کی عبادت گاہوں میں جاتے رہے کہ جہاں کی تقدس بھری خاموشی اور خاموشی بھری ٹھنڈک سے خودبہ بخود پلکیں جھک جاتی ہیں اور لہجے گھمبیر ہو جاتے ہیں۔
ریت ، ہوا اور فضا میں تنہا کھڑی ’امیتانی بانک‘ جہاں بے شمار بے اولاد جوڑوں کی امیدیں بر آئیں، جسے انجلینا جولی نے Princess of Hope کا نام دیا جو امید کی نہیں بلکہ خیر کی امید کی شہزادی ہے:اچھی امید کی رانی۔ جسے دیکھ کر آنکھ پلک جھپکنا بھول جاتی ہے، زبان گنگ ہو جاتی ہے ،ہاں مگر خاموشی بولتی ہے، بڑے زور و شور سے! اور ہم اس اچھی شہزادی کے حکم کی تعمیل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ سائنس اور علم کا حصول ہی اصل نجات کا راستہ ہے۔
یہ چار روزہ کتابوں کا میلہ تھا جس کے لیے سفر ہوا تھا اور جس میں سیمینار، پینٹنگز کی نمائشیں ، ڈرامہ اور مشاعرے تھے۔ جسے بڑی خوبصورتی سے مری صاحب نے بڑی تفصیل سے بتایا اور جسے صرف پڑھ کر ہی آپ لطف لے سکتے ہیں ، ہاں مگر میں اس طبلے کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گی کہ جس میں محبوب کے کان کی جھمک کی ژلک ژلک جیسا ساز بج رہا تھا۔ کراچی سے آئے ہوئے فن کار روفیؔ نے جب ایک کتاب پر طبلہ بجانا شروع کیا تو وہ سماں بندھا کہ جس نے حاضرین کو مست کر دیا ا ور سب نے ہی اس طبلے کے ساتھ جھومنا، گانا اور لہرانا شروع کر دیا تھا۔
کتاب کے آخری حصے میں ڈاکٹر صاحب نے گوادر، چین سے متعلق لکھا کہ کس طرح گوادر کی رضامندی کے بغیر وہاں بین الاقوامی منصوبے بنائے جارہے ہیں اور ایسے کیے گئے فیصلے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے:’’ چین نے سوشلزم چھوڑ کر سرمایہ داری شروع کر دی ہے ۔ اس نے پیسے کی دوڑ شروع کر دی ہے اور پاک چین راہداری کا نیا شوشہ اسی کی ایک کڑی ہے۔ چین ملاکا خلیج کو چھوڑ کر عرب خلیجی ممالک کے تیل اور توانائی کو گوادر کے راستے لے جانا چاہتا ہے۔گوادر کو سڑک اور ریل کے ذریعے پاکستان کے شمال میں قراقرم شاہراہ سے ملانا چاہتا ہے کیوں کہ یہ روٹ اسے ملاکا روٹ سے نزدیک پڑیگا۔بارہ ہزار میل کا فاصلہ گھٹ کر 2395 کلو میٹر رہ جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے businessmen جب گوادر آکر investment کریں گے تو گوادر کے اپنے لوگوں کی حیثیت صرف ایک اقلیت ،ایک غلام کی سی رہ جائے گی۔ ا س سب کے لیے ضروری ہے کہ بلوچ سے، گوادر سے ، بلوچستان سے بات کی جائے ان کی رضامندی لی جائے۔ ورنہ ۔۔۔ ورنہ کا لفظ تو پھر مشکل میں ڈالتا ہی ہے۔‘‘
اور پھر یہ کہ ترقی کا آغاز کے لئے سڑکوں کا جال اور ریل کی لائینیں اشد ضروری ہیں پہلے ان پر تو کام کیا جائے۔
گوادر اور اس کے سمندر میں ایک طلسمی کشش ہے جو وہاں چلا جائے اسے پھر اتنی آسانی سے واپس جانے نہیں دیتا۔ ہر طرح سے روکنے کے طریقے آزمائے لیکن جانے والوں نے جانا ہی ہوتا ہے لہذاپھروہ گوادر کے سمندر کی ٹھنڈک کو اپنی روح میں اتار کے شال لوٹ آئے۔
پڑھنے والی کتاب ہے ضرور پڑھئے کہ اس میں گوادر ،، ترقی،، ، گوادر کے مچھیروں کی غربت کی کہانی کے علاوہ سمندر کا سِحر اور مندر کی بولتی خاموشی بھی ہے جو غیر محسوس انداز میں قاری کو جال میں مچھلی کی طرح جکڑ لیتے ہیں۔