رمضان کا مہینہ جہاں روزے داروں کی طرح سنڈے پارٹی نے چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ عید ہوتے ہی جہاں روزے داروں نے عید منائی تو وہیں سنڈے پارٹی کی محفلیں ایک مرتبہ پھر بحال ہو گئیں۔ سنڈے پارٹی نوجوان اور بوڑھے افراد پر مشتمل ایک جماعت سی بن چکی ہے۔
اِس بار سنڈے پارٹی نے اتوار کو اپنے خوب گن گائے۔ جہاں نئے آنے والے مہمانوں کا استقبال بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر ابابگر، احسان میراپنے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ بہت عرصہ بعد آئے تھے۔ کچھ دوست تو پہلی بار شرکت کررہے تھے۔ یہ طلبا لاہور اور تر اسلام آباد میں پڑھتے ہیں۔ وہ بھی سنڈے پارٹی کا حصہ بنے۔
سنڈے پارٹی کی محفل جمی ہوئی تھی تو جیئند خان جمالدینی نے شیام کمار سے سکھر دور کے یادوں کا تذکرہ سننا چاہا۔ بس بھئی پھر کیا تھا جناب شیام کمار ایسے شروع ہوگئے کہ سکھر تو سکھر بلوچستان بھی موضوع بحث آگیا۔ بھٹو دور، ضیا دور اور موجودہ دور۔۔۔ شیام کمار نے پرانے زمانے میں اخلاقیات کے دائرہ کار کا احاطہ کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی نے جو اس اخلاقیات کو نقصان پہنچایا ہے اس پر تفصیلی گفتگو کی۔ جس پر شرکا نے شیام کمار کے دلائل پر اثبات میں سر ہلا کر واہ واہ کی۔ تو وہیں سرور نے موضوع کا رخ کہیں اور جوڑا۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی جانب سے فرمائش سامنے آگئی کہ جی نوجوانوں کو بولنے کا موقع دیا جائے۔ ڈاکٹر ابابگر شاید اسی طاق میں تھے تو انہوں نے بلوچستان مسئلے کا حل پروگرام میں موجود سینیئر حضرات سے دریافت کیا۔ تو کامریڈ تو اسکے جواب کے لیے کامریڈ غلام نبی کی جانب موضوع کو موڑا گیا تو کامریڈ غلام نبی نے نہیں بولنا تھا تو وہ نہیں بولے۔ البتہ شیام کمار اور قاری صاحب بول پڑے۔ قاری صاحب کی طوالت بھری تقریر نے جب محفل کو خاموش ہونے پر مجبور کر دیا ۔ یہاں تک کہ بات تعلیم پر آگئی تو اس موضوع کا اختتامیہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں موجودہ صورتحال میں خاموش رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں راہوں کا تعین کرنا چاہیے جس طرح پانی کو اگر راستہ نہ ملے تو وہ کہیں جمع ہو کر اپنے لیے راستہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح ہمیں بھی اپنے راہوں کا تعین کرنے کے لیے راستہ نکالنے کی ضرورت ہے۔ ہم لاکھ چاہیں لیکن تعلیم ریاست کے پاس ہے ہمیں انکے پاس جانا ہی پڑتا ہے۔ تو کیوں نہ ہم اپنا مطالبہ دہرائیں کہ تعلیم ہمارا بنیادی حق ہے جو ریاست کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو تعلیم دے۔
پروگرام میں جہاں سب نے اپنی بولی بولی تو وہیں جو شخص نہیں بولا وہ تھا پروفیسر گل بنگلزئی۔۔۔ حسب معمول وہ پروگراموں میں آتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ عبدالحمید شیرزادے کی کمی بھی پروگرام میں محسوس کی گئی۔
سنڈے پارٹی میں واجہ عبداللہ جان کی موجودگی نے بھی پروگرام کو چار چاند لگا دیے۔ گو کہ خاصے کمزور۔۔ لیکن اسکی محبت بھری آنکھیں اپنے دوستوں کو ڈھونڈتی رہیں۔ محبت کا انداز بیان اور ہر ایک سے محبت بھرا مصافحہ یقیناًہر ایک کو اپنی طرف کھینچتا چلا گیا۔
پروگرام میں ایک اور شخص کی غیرموجودگی بار بار احساس دلاتا رہا وہ تھا آزات جمالدینی جونیئر۔۔۔ جسے شاید نوشکے کی یاد بہت ستا گئی تھی کہ جس نے ایک پروگرام چھوڑنا نہیں تھا وہ آج پروگرام کا حصہ ہی نہیں تھا۔ البتہ اسکی کمی محفل کے شرکا نے بخوبی محسوس کی۔
سنڈے پارٹی ہر دو ہفتے بعد دوستین جمالدینی کے ہاں منعقد ہوتی ہے۔ یہ اجتماع تمام احباب کو انکی مصروفیات سے نکال کر ایک جگہ اکھٹا ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہر سنڈے پارٹی کا ریکارڈ رکھنے کے لیے فوٹوگرافی کی جاتی ہے اور پروگرام کے اختتام پر ایک گروپ فوٹو نکالا جاتا ہے۔ جنھیں فیس بک پر بنی Balochistan Sunday Party – B.S.P کے پیج پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کے اختتام پر بھی یہی ہوا۔ یوں یہ سنڈے پارٹی خوشگوار یادیں لے کر اپنے اختتام کو پہنچی۔