کامریڈ واحد بلوچ ایک باشعور سیاسی و ادبی ثقافتی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں…ان کے چچا استاد عبدالستار بلوچ ایک بہت بڑے موسیقار مانے جاتے ہیں جنہوں نے متعدد خوبصورت اور یادگار دھنیں ترتیب دیں…ان کے درجنوں شاگرد گلوکاری و موسیقی کے میدان میں تاحال نہ صرف سرگرم ہیں بلکہ بلوچی موسیقی میں ایک ممتاز مقام بھی رکھتے ہیں…
ان کے دوسرے چچا استاد عبدالرشید بلوچ بھی اپنے بڑے بھائی استاد عبدالستار بلوچ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں…واحد بلوچ کے بڑے بھائی عبدالقادر بلوچ کا بھی لیاری کی ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں ایک نمایاں کردار رہا ہے…
ایک باشعور خاندان کا باشعور فرد ہونے کے ناطے واحد بلوچ نے بھی ہوش سنبھالتے ہی خود کوترقی کی قوتوں کے ساتھ جوڑ دیا…زمانہ طالبعلمی میں وہ طلبا سیاست میں فعال رہے…
اپنے ہی جیسے ایک اور نوجوان عبدالوھاب بلوچ جو انہی کی طرح ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کے ساتھ مل کر بلوچی زبان کے خدمت گار اور معروف انقلابی شاعر مرحوم آزات جمالدینی کے نام سے ایک اکیڈمی کی سنگ بنیاد رکھی اور اس اکیڈمی کے زیر اہتمام پہلی کتاب "مستیں توار” شائع کی…یہ کتاب مرحوم عبدالواحد آزات جمالدینی کا شعری مجموعہ ہے بلوچی زبان کے اس بڑے شاعر کا یہ مجموعہ تقریباً "لاپتہ” ہوچکا تھا مگر ان دو نوجوانوں نے اپنی محنت سے اسے بازیاب کروادیا…جسے بعد میں سنگت اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک مرتبہ پھر چھپوایا گیا۔
آزات جمالدینی اکیڈمی کے زیر اہتمام انہوں نے بلوچی کتابوں کی اشاعت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی..یہ 80 کی دہائی کے ماہ و سال تھے کتابوں کی اشاعت "سرمائے” کی محتاج تھی ایک بے روزگار سرپھرا نوجوان بھلا سرمایہ کہاں سے لاتا , گرتے پڑتے , لڑکھڑاتے سنبھلتے وہ چلتے رہے…ایک دن قدرت مہربان ہوئی انہیں سول ہسپتال کراچی میں نوکری مل گئی…انہیں تو گویا پر لگ گئے۔۔۔ایک جانب وہ کتابیں چھاپتے اور دوسری جانب غریب مریضوں کو ڈاکٹر نما قصائیوں کے چنگل سے نکال کر علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے میں جت گئے…نوے کی دہائی میں بلوچ بیوروکریٹ اور نامور ادیب و محقق غلام فاروق بلوچ کی درخواست پر انہوں نے ماہنامہ "بلوچی لبزانک” کی ادارت سنبھالی…ان کا گھر , دفتر بن گیا…کتابوں کی اشاعت , ماہنامے کا اجرا, مریضوں کی دیکھ بھال اور ثقافتی پروگراموں کی ترتیب وہ ایک جن کی طرح بیک وقت یہ سب کام کرتے رہے…
کامریڈ واحد بلوچ ان چند افراد میں سے میں جنہوں نے سید ہاشمی ریفرنس لائبریری منصوبے کو ممکن بنانے کیلئے اپنی خدمات پیش کیں۔کئی سالوں کی دھوڑ دھوپ اور صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ملیر میں قائد آباد پل کے قریب "سید ہاشمی ریفرنس لائبریری” کی پرشکوہ عمارت کھڑی ہوگئی…لائبریری کیلئے کتابوں کے بندوبست میں جہاں انہوں نے کراچی کے تقریباً تمام پبلشرز کو قائل کیا وہاں اپنی ذاتی لائبریری سے بھی سینکڑوں کتابیں عطیہ کردیں…
26 جولائی 2016 کو وہ اپنے قریبی دوست اور بلوچی زبان کے شاعر صابر ناگمان کے ہمراہ عمر کوٹ سے مسافر بس میں کراچی آرہے تھے کہ راستے میں "نامعلوم مسلح افراد” نے بس کو روک کر سب کے شناختی کارڈ چیک کیے…اور انہیں ساتھ لے گئے۔
واحد بلوچ ، زبان ادب اور ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں , وہ نادار مریضوں کے مسیحا ہیں , وہ درد مند دل کے مالک ہیں , ان کااغوا اعلیٰ انسانی اقدار و روایات کو نقصان پہنچاتا ہے…کلچر کو تاریکی میں دھکیلنا انسانی ثقافتوں کے گلدستے کو تار تار کرنے کے مترادف ہے…انہیں بازیاب ہونا چاہیے , انہیں آزاد انسانوں کی طرح جینے کا حق ملنا چاہیے…