غیرمعمولی شخص عبدالستار ایدھی ،ایک غیر معمولی منطقے میں، ایک غیر معمولی دور میں نمودار ہوا۔ ایسا منطقہ اور ایسا دور جہاں طاقت اور مستی کابے ہنگم اور بھرپور استعمال ہوتا ہے۔ جہاں انا پرست فیوڈل ، روٹی کپڑا اور مکان کے پاک انسانی جذبات سے کھیل کربادشاہ بن جاتے ہیں۔ایک ایسا غیر معمولی ملک جہاں جاگیرداری نظام ہر ادارے میں موجود ہے۔ ایک ایسا سماج جہاں مومنوں کا بھی مومن شخص 90 دن کا وعدہ کرکے گیارہ سال تک جبر و جور سے آلودہ حکمرانی کرتا رہا۔ ایک ایسا سماج جہاں دھوکہ بازی لیڈروں سے ہوتے ہوئے عوام الناس تک سرایت کر چکی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں صرف ایک ہی رویے کا راج ہے:بداعتمادی کا ۔۔۔۔۔۔
اِس ابنارمل ،غیر فطری اور غیر معمولی ماحول میں ایدھی نمودار ہوا۔
یہ غیر معمولی انسان معمولی کام سے ابتدا کرتا ہے۔ وہ کچلے ہوئے اور مسترد کردہ ابنِ آدم کا ہمدرد بن کر سامنے آیا۔اورپیدائش سے لے کر اُس کے کفن دفن تک ایدھی اُس ناچیز کے ساتھ رہا ۔
اور یہ مسترد کردہ انسان کون تھا جس کی پیدائش کے ساتھ ہی ایدھی اُس کا ساتھی بنا ؟ وہ انسان وہ نوزائیدہ بچہ تھا جس کے والدین نے سماجی دباؤ کے تحت اپنانے، پالنے سے انکار کردیا۔
سماج نے جب بغیر رواج سے پیدا ہونے والے بچے کو ’’ حرامی‘‘ کہا اور بیسیوں برسوں سے یہ حکم صادر کیے رکھا کہ اِس نوزائیدہ آدم زاد کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، اُسے کُوڑے کے ڈھیر میں کتوں بلیوں کو زندہ پھینک دو۔ تب اِس ایک معتبر شخص نے پورے سماج کو باطل قرار دے دیا۔اُس نے کہا توکچھ نہیں ،بس اُس انسان کے بچے کو ،حلال حرام کے چکر میں پڑے بغیر ،پنگھوڑا مہیا کردیا ۔ چوری چھپے نہیں، بھرے چوک میں۔اُس نے ہر بڑے چوک میں ایسے نوزائیدہ بچوں کے لیے پنگھوڑا رکھ دیا جنہیں ماں باپ پالنے سے قاصر تھے۔۔۔۔۔۔۔ اورحیرت ہے کہ سماج نے اُسے ایسا کرنے دیا۔ کدھر گئی وہ بنیاد پرستی جس کا ذکر کر کرکے ہم خود کو ڈراتے رہتے ہیں۔ کہاں گئی وہ غیرت والی مونچھیں جنہیں زلزلہ ،قحط اور ہر طرح کی غیرت سے دوری کبھی بھی نیچے نہ کر پائی تھی؟۔’’ حرامی‘‘ اولاد ایدھی کے پنگھوڑے میں جاتے ہی ’’ حلالی‘‘ بن جاتا ہے ۔ایک نہیں، دو نہیں سینکڑوں انسانی اولادیں بے حرمتی کی موت سے بچیں اور ممتا بھرے اِن پنگھوڑوں کے حوالے ہوگئیں۔ زندہ رہنے کے لیے، آبرو بھری بھرپور زندگی گزارنے۔
یہ عام بات نہیں حیرت و تعجب و عبرت کی غیر معمولی بات ہے۔ ایسا تو انسانی تاریخ میں نہیں ہوا۔ غیرت ،رسم، عقیدہ اور رواج سب ایک لاغر، بے موٹر کار ، بے باڈی گارڈ، بے جھنڈا اوربے بنگلہ آدمی کے رکھے پنگھوڑے کے سامنے بخارات بن کر اڑ گئے۔وہ بھی یوں کہ نہ تو وہ کبھی کسی کو قائل کرنے گیا، نہ اس نے کسی کو منتیں کیں،نہ دلائل دیے۔ محض پنگھوڑا رکھا۔ اور مونچھ، گردن، ایمان سب کچھ اس کے رکھے ہوئے اِس بے جان پنگھوڑا کے سامنے سرنگوں ہوتا رہا۔ نہ کوئی آرڈننس، نہ فرمان، نہ لابی انگ، نہ اسمبلی، نہ نظریاتی غیر نظریاتی کونسل ۔نہ آئین نہ بل، اور نہ پریس کانفرنس۔ محض ایک بہادر و معتبر و مصمم انسان کے انسان دوست پنگھوڑے نے ایسے دہشتناک اقدام کو باطل کردیا جہاں نومولود زندہ ’’درگور ‘‘ نہیں، زندہ زندہ کتوں بلیوں کی خوراک بن جایا کرتا تھا۔
ہر چوک پر خالی رکھا ہوا یہ پنگھوڑا جب اشرف المخلوقات کی گلکاریوں سے معطر ہوجاتا تو جاکر ایدھی کے قائم کردہ گھروں میں خالی ہوجاتا۔ مہربان ہاتھ اُسے نازو مہر سے اٹھاتے، صابن شمپو خوشبو کرتے ، لباس پہناتے اور گرم آغوش مہیا کرتے۔ ایک پاک رجسٹر میں اِس بچے کی ولدیت کے خانے میں ایدھی اور اُس کی مہربان بیگم کے آبرو مند نام لکھے جاتے۔ اسے پالا پو سا جاتا ، تعلیم دلادی جاتی اور ایک نارمل انسان کے بطور بڑا کیا جاتا۔
پھر اُس کا ایک اور غیر معمولی کارنامہ دیکھیے۔کراچی ربع صدی سے بدترین فاشزم کا ہیڈ کواٹر چلا آرہا ہے۔ لسانی کشت و خون ، فرقہ وارانہ قتل و قتال ،بد ترین گینگ وار،اور فوجی اپریشنیں ۔۔۔۔۔۔ ہر سر کو اپنی سلامتی کے لالے پڑے ہوتے تھے۔ مگر، ایسے میں اِس بے رعب و بے تکبر بڈھے کا اس ملک کا سب سے بڑا ایمبولنس نیٹ ورک اسی شہر میں فعال تھا۔ ایدھی تشدد اور نفرت کی آگ کے عین وسط میں جا موجود ہوتا۔اور سائر نیں بجاتے بجاتے زخمیوں کو بھیڑیوں کے جبڑوں سے نکال کر انہیں ہسپتالوں تک آکسیجن کے حوالے کرنے جا پہنچاتا۔زندگی کی بقا کے سائرن ،زندگی کے دوام کے ہوٹرز۔ زندگی جو انمو ل ترین نعمتوں کی بھی انمول ترین نعمت ہے۔
پھر لاوارث، (یاوارثوں کی جانب سے لا وارث کردہ) ،بوڑھے کہاں جائیں؟ ۔بے آسرا مرد وزن کہاں جائیں؟ ۔ایک نفسا نفسی والے معاشرے میں ضعیف اور ضعیفہ کہاں رہیں؟۔۔۔۔۔۔۔سرکار سردار نہیں، بھئی ۔ایدھی ہی انہیں باعزت طور پر رکھنے اور دیکھ بھال کرنے کا کام سنبھالتا ہے۔وہ اِن نزوروں نحیفوں کو گھر اور گھر کا ماحول کو مہیا کرتا ہے، شرف دیتا ہے، کھانے دوائی صفائی لباس کا انتظام کرتا ہے اور ایک خیالداری بھرا ماحول مہیا کرکے احترام کا انتظام کرتا ہے۔
اور مُردے ؟۔ ایدھی نامی یہ شخص لاوارث اور باوارث دونوں طرح کے مردے اپنے سنٹر میں لے جاتا۔ مردہ بے وارث ہوتا تو اسے وارثوں کی آمد تک بڑے بڑے ایئر کنڈیشننگ مشینوں بھرے اپنے یخ بستہ مردہ خانوں میں غیر معینہ مدت تک رکھواتا۔ اگر وارث والا ہوتا تو اسے اپنے سنٹر میں ( اور اپنے ہاتھوں سے ) شمپو سے غسل دیتا ،اسے کفن مہیا کرتا، اپنے ہی مرکز کے مہیا کردہ تابوت میں رکھواتا، اپنے ہی مرکز میں اس کا جنازہ پڑھواتا اور ایدھی ہی کے ایمبولنس میں ورثا کے گھر اور پھر وہاں سے قبرستان تک پہنچادیتا۔
اور اِس سارے کام میں نہ تو وہ پارسائی کا دعویٰ کرتا ، نہ کرامت سے کمزور عقیدہ والوں کو مرعوب کرتا، نہ خواب میں کسی درویش کو دیکھتا، نہ تقریرو خطاب کرتا، نہ ٹی وی پہ اُکڑوں موجود رہتا، نہ سیاسی پارٹیوں کے نعرے لگاتا، اورنہ سرکار دربار میں کورنشیں بجالاتا۔ ہمہ وقت اپنے کام میں، اپنے گوشے میں رہتا۔ پیسہ عوام خود پہنچایا کرتے۔ ہاں، اگرغیر معمولی حالات ہوتے تو وہ بھکاریوں کا کچکول گلے میں ڈالتا اور شہر شہر مشہور چوک پہ کھڑے بھیک مانگتا۔ ایسا بھکاری جس کے پاس انسانوں کی مدد کے لیے ہزاروں ایمبولنس گاڑیاں ہیں، ہیلی کاپٹر ہے، ہر اہم شہر میں سنٹر قائم ہیں۔۔۔۔۔۔ کروڑ پتی بھکاری۔
کتنی ایمانداری ، مستقل مزاجی اور عاجزی سے وہ یہ سارے کام کرتا رہا۔اورکمال یہ کہ مرا تو دو جوڑے کپڑے تھے اس کے پاس۔ ساری عمر اُس نے اپنی ذات کی نفی کیے رکھی۔ فرنٹ سیٹ پہ لعنت بھیجتا ہوا، نام و ناموس کی حرص سے دور، کروفر سے پرے رہتا ہوا،خود توصیفی کو حقارت سے جھٹکتا ہوا، انعام اکرام اور میڈل اعزاز کو جوتی کی نوک پر رکھاہوا۔
بڑا آدمی عبدالستار ایدھی ،وہ وہ کام کرتا مر گیا جو دراصل ریاست کے بنیادی کام ہوتے ہیں۔ اب اس بحث میں کیا پڑنا کہ اتنے بڑے شعبوں میں اتنے بڑے کام کرکے ایدھی سرمایہ دارانہ نظام کو ، اُس نظام کی ریاست کو فائدہ پہنچاتا رہا۔ گو کہ یہ بات حقیقت ہے کہ اپنی ساری ذمہ داریوں سے ایک ایک کرکے دستبردارہوچکی ہوئی ریاست کے لیے تو ایدھی جیسے لوگ سہارے کا کام دیتے ہیں۔ مگر، یہ تو حکمرانوں کے لیے ایک بائی پراڈکٹ ہے۔
ریاست کو اپنے فرائض کی ادائیگی پر مجبور کرتے رہنا ایک سیاسی کام ہے۔ اور یہ حتمی طور پرسیاست دانوں ( یعنی عوام) کے تسلسل کے ساتھ کرتے رہنے والا فریضہ ہے۔ عوام اور اُن کی سیاسی پارٹی کی طرف سے بھرپور طور پر جاگتے رہنے اور ریاست کو اپنے فرائض سرانجام دینے پر مجبور کرکے حتمی منزل تک پہنچنے تک پنگھوڑے توضروری رہیں گے، ایدھی ہومز، ایمبولنس ، مردہ خانے ، اور اولڈ ایج سنٹر سب ضروری رہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اور ہم ایسا کرنے والوں کی تکریم کے لیے اپنی گردنیں خم کرتے رہیں گے۔ یہ ایدھی جیسے لوگوں کا حق ہے۔
زندگی کی حفاظت کے لیے ہی توریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس لیتی ہے۔ اس لیے یہاں کسی ایدھی کو پنگھوڑے لگانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ شہریوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے ایمبولینس سروس کوئی فرد یا ادارہ بھلاکیوں چلائے؟۔ ہم آپ اپنا فریضہ ادا کررہے ہیں یا نہیں، مگر ہم سب یہ جانتے ہیں کہ مُردوں کے لیے سردخانے، اورسفیدریش شہریو ں کی دیکھ بحال کے ادارے ایک ریاست کے معمول کے مگر بنیادی فرائض ہوتے ہیں۔مگر ریاست ایسا نہیں کرتی۔ اور ہم آپ بھی محض بے درد تبصرے کرکے خاموش رہتے ہیں۔ تو نرم دل لوگ ایسے کام کرنے لگ جاتے ہیں۔ قصور کس کا؟ ۔ریاست اور اُس کے شہریوں کا، یا اُس نرم دل انسان کا؟۔ ہمیں اپنے آپ پر، اور ریاست پر تنقید کرنی ہوگی۔
ایدھی کے بارے میں ایک افسوس ضرورہوتا ہے ۔ وہ یہ کہ اتنے بڑے باصلاحیت انسان کو کتنے چھوٹے کاموں میں ضائع کردیا پیپلز پارٹی نے، مسلم لیگ نے ، فوج نے ، سول بیوروکریسی نے، میں نے، آپ نے،ہم سب نے۔
ریاست کی طرف سے ایدھی صاحب کی تدفین کو سرکاری اعزاز دینا بہت اچھا عمل تھا۔اور یہ کوئی احسان نہ تھا۔ ایدھی کا حق تھا کہ اُس کی تابوت کو سلامی دی جائے، اسے ریاستی اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔ اس سے ریاست اور اس کے اپنے اداروں کا احترام بڑھا ہے۔سٹیٹ بنک کو سکہ جاری کرنا ہی چاہیے۔ ڈاک خانے کو ایدھی ٹکٹ چھاپنے ہی چاہئیں۔ سڑکوں، پارکوں، اوراداروں کے نام ایدھی پر رکھنے ہی چاہئیں۔
مگر، اصلی کام کیا ہے ریاست کا؟۔ اصلی کام یہ ہے کہ ایدھی جو کام کررہا تھا وہ ایدھی کے نہیں، ریاست کے کرنے کے کام تھے۔ریاست کو وہ کام خود کرنے چاہیے تھے۔ اگر اُس نے کل یہ کام نہیں کیے تو آج اپنے کرنے کے کا م کو کرنا شروع کردے۔
ایدھی فوت ہوگیا، مگر ریاست اور اس کے شہری زندہ ہیں۔ اب ہی ہمت کرے ریاست، اور اپنے فرائض سنبھالے۔۔۔۔۔۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست تو ایسا نہیں کررہی۔ ریاست جو نہ اپنے شہریوں کوبھتہ خور اورڈاکو سے بچاتی ہے، نہ انہیں دہشت گردوں سے امان دیتی ہے۔ ریاست نہ پبلک تعلیم دیتی ہے اور نہ ہسپتال مہیا کرتی ہے۔ یہ نہ نوزائیدہ بچوں کو پنگھوڑے نصیب کرتی ہے نہ سن رسیدوں کو اولڈ ہومزدیتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور پھر بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے وجود کا جواز دیتی رہتی ہے۔ہٹ دھرمی کے ساتھ انہی شعبوں کے ٹیکس لیتی رہتی ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ میں اور آپ کیا کرتے ہیں؟۔عوام کیا کرتے ہیں؟۔کیا ہم مزید ایدھی پیدا کرتے رہیں گے یااپنی اشرف المخلوقاتی، انسانی ڈیوٹی پوری کرتے ہوئے ریاست کو مجبور کر نے لگ جاتے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کو تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش مہیا کرنے کا اپنا کام کرے۔ اور ایدھی جیسے باصلاحیت لوگوں کومُردے دُھلانے پر لگانے کی بجائے اُن سے اُن کی قابلیتوں کے مطابق اعلیٰ ارفع کام لے۔یہی جدوجہد ہے ۔ اسی جدوجہد کو ’’ سیاست‘‘ کہتے ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے