یہ سال ۲۰۰۰ء کی بات ہے جب میں نے ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں ایم فل/ پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے زیر نگرانی پہلے سے ہی پانچ چھ طلبہ مقالے لکھنے میں مصروف تھے۔ میری تجویز پر یہ طے پایا کہ ہفتے میں ایک دن سب اکٹھے ڈاکٹر صاحب کے پاس آجایا کریں گے۔ یوں ہمارا ہر ہفتے ان کے پاس جانے کا سلسلہ شروع ہوا جو سولہ برس تک یعنی ان کے انتقال سے دو ہفتے قبل تک جاری رہا۔ ابتدا میں جو ملاقاتیں صرف مقالے تک محدود رہتی تھیں وہ وسیع تر مطالعے پر مشتمل ہونے لگیں۔ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر استاد تھے اور شفقت ان کی ذات میں رچی بسی تھی۔ شاگردوں کے لیے ان کے گھر کے دروازے ہی نہیں علم و آگاہی کے سارے دریچے وا رہے۔ان کا مطالعہ اور یادداشت دونوں ہی غیر معمولی تھی۔ شعر و ادب کے حوالے یوں دیتے جیسے کتاب پڑھ کر سنارہے ہوں۔ بلا مبالغہ ہزاروں اشعار انہیں یاد تھے۔ ان میں بڑے چھوٹے، کلاسک اذہ کی تخصیص نہیں تھی۔ بس کسی شاعر کا ذکر آتا تو اس کا عہد اور اشعار دونوں ہی ڈاکٹر صاحب کا موضوع بن جاتے۔ ان ہفتہ وار ملاقاتوں میں ہم شاگرد ہی نہیں علم و ادب سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگوں نے بھی آنا شروع کردیا خصوصاً جب کوئی شہر کے باہر سے آتا تو اسے ڈاکٹر صاحب کے یہاں سجی سجائی ادبی محفل مل جاتی۔ ڈاکٹر صاحب کا ہر ایک کو خیر مقدم کرنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ ایک بار آنے والا بار بار آتا۔ ویسے بھی ہمارے عہد میں دشتِ علم و ادب کی سیاحت کرنے والا شاید ہی کوئی ہو جس کی ملاقات ڈاکٹر اسلم فرخی سے نہ ہوئی ہو یا انہیں نہ دیکھا ہو ان کی گفتگو نہ سنی ہو۔ جامعہ میں تدریس کی صورت، کسی سنجیدہ محفل میں تقریر کی صورت ان کے اپنے گھر میں علم کی جستجو رکھنے والوں کے درمیان یا کسی شخصیت کا خاکہ پڑھتے ہوئے جسے انہوں نے تحریر کیا ہو، یادیں دہراتے، کتابوں کے حوالے دیتے، اذہ کے شعروں پر شعر سناتے، مجسمہ شفقت، علم اور اخلاق ڈاکٹر اسلم فرخی سے جو بھی ایک بار ملا ملتا ہی رہا۔بلاشبہ ڈاکٹر اسلم فرخی عصرِ حاضر کے ایسے ادیب، شاعر، ناقد، محقق اور استاد تھے جن کی ہمہ جہت شخصیت کو ایک مضمون میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک طرف ان کا تحقیقی کارنامہ ’’محمد حسین آزاد حیات اور تصانیف‘‘ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف ان کے لکھے ہوئے متعدد خاکے ہیں۔ آزاد‘ جنہوں نے ’’آب حیات‘‘ لکھ کر ناصرف ایک پورے عہد کو بقائے دوام بخشا بلکہ اردو نثر کی روایت میں نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔
آزاد کو لکھنے کے لیے زبان و بیان پر وہی دسترس، مشاہدے کی باریک بینی اور گہری انسان دوستی چاہیے تھی جو آزاد میں تھی۔ یہ اوصاف ڈاکٹراسلم فرخی کو بھی درجہ کمال تک عطا ہوئے۔ انھوں نے محمدحسین آزاد پر تحقیقی مقالہ لکھا تو لکھتے چلے گئے اور تین برس میں بڑی دلجمعی سے تحقیق کرکے 1960ء میں یہ مقالہ مکمل کیا۔ محمدحسین آزاد کے خاندان سے پشتنی قربت اور ان کی تصانیف کے عمیق مطالعے نے ان کی ذات کے کسی گوشے کو تاریک نہ رہنے دیا۔ ’’محمدحسین آزاد حیات و تصانیف‘‘ کے عنوان سے یہ مقالہ دو جلدوں میں انجمن ترقی اردو نے 1965ء میں شائع کیا۔ اس مقالے پر 1965ء میں داؤد ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ اس کا نیا ایڈیشن بھی انجمن نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹراسلم فرخی نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ آزاد کی صد سالہ برسی کے موقع پر ’’نگارستان آزاد‘‘ ایک اور تصنیف ادارۂ شہرزاد نے شائع کی ہے۔ یہ کتاب محمدحسین آزاد کی حیات و نگارشات کا جامع مطالعہ ہے۔ آزاد کی شخصیت سے غیرمعمولی تعلق ان کی تصنیفات کے دقیع تحقیقی مطالعے اور طویل مقالے کے بعد ان پر ایک اور تصنیف کتنی جامع اور مصدقہ ہوگی؟ اس پر دورائیں تو ہو ہی نہیں سکتیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں عام قاری کے لیے بیحد کشش ہے۔ ایک تو آزاد کی تصانیف کے بیان میں جامعیت، دوسرے آزاد کا شخصی خاکہ اور وہ بھی ڈاکٹراسلم فرخی کے قلم سے، جن کی تمام تخلیقی خوبیوں پر خاکہ نگاری مقدم ٹھہری۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے اٹھانے کے بعد اختتام تک پڑھے بغیر رکھا نہیں جاسکتا۔ آبِ حیات میں آزاد نے انشا پردازی کی جو تعریف کی ہے اسے اچھی نثر اور کامیاب خاکہ نگاری کا پیمانہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ آزاد لکھتے ہیں۔
’’فارسی اور اردو کی انشا پردازی میں جو دشواری ہے اور ہندی کی انشامیں آسانی ہے، اس میں ایک باریک نکتہ غور کے لایق ہے۔ وہ یہ ہے کہ بھاشا زبان جس شے کا بیان کرتی ہے، اس کی کیفیت ہمیں ان خط و خال سے سمجھاتی ہے جو خاص اسی شے کے دیکھنے سننے، سونگھنے چکھنے یا چھونے سے حاصل ہوتی ہے۔ اس بیان میں اگرچہ مبالغہ کے زور یا جوش و خروش کی دھوم دھام نہیں ہوتی، مگر سننے والے کو جو اصل شے کے دیکھنے سے مزہ آتا ہے وہ سننے سے آجاتا ہے۔‘‘
انشا پردازی کا یہ کمال ڈاکٹراسلم فرخی کے خاکوں میں نمایاں ہے۔ وہ قارئین جن کی نظر سے ان کے خاکے گزرے ہیں، جانتے ہیں کہ ان خاکوں میں صرف شخصیات نہیں ،ایک عہد سماجی، پس منظر اور اقدار و روایات کے ھ قلم بند ہوا ہے۔ ان کے خاکوں کے مجموعے ’’گلدست�ۂ احباب‘‘ ’’سات آسمان‘‘ اور ’’لال سبز کبوتروں کی چھتری‘‘ اور ’’آنگن میں ستارے‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ آج کے عہدمیں خاکہ نگاری کی تاریخ و تعریف ان دو کتابوں کے بغیر متعین نہیں ہوسکتی۔ وہ کوئی عام شخصیت ہو یا خواص میں سے ہو، ملازم ہو، قرابت دار ہو، ہم عصر ہو یا بزرگ، جس پر قلم اٹھایا یکساں توازن اور شائستگی برقرار رکھی۔ ان کے خاکے ہمہ جہت ہوتے ہیں۔ یہ شخصیت اور گرد و پیش کو زندہ و متحرک رکھتے ہیں۔ طبیعت کی سنجیدگی و شوخی، انسانی خوبی و کمزوری، صلاحیتوں کی قدرو مقدار میں توازن اور انسان دوستی برقرار رہتی ہے۔ ان خاکوں میں زندہ انسان سے ملاقات ہوتی ہے۔ کسی تخلیقی فوق البشر، بت یا مکروہ بدکردار سے نہیں۔ وہ ایک فرد کو اس کی کمزوریوں میں بھی انسان دیکھتے ہیں،شیطان نہیں۔ ان کی انسان دوستی حسن کی کوئی ادا ضرور تلاش کرلیتی ہے۔ منیر نیازی نے لکھا ہے۔
ہر کسی کے چہرے پر اک ضیا سی ہوتی ہے
حسن کے علاقے کی اِک ادا سی ہوتی ہے
اس ضیا کو منعکس کرنے کے لیے اپنی ذات کو آئینے کی طرح شفاف رکھنا پڑتا ہے تب وہ تصویر ابھرتی ہے جو ایک عام انسان کو خاص بنادیتی ہے۔ خاکہ نگارکا علم مشاہدہ اور تخیّل گزرے ہوئے وقت کوحال میں تبدیل کردیتا ہے اور ٹھیری ہوئی تصویر کو متحرک بنادیتا ہے۔ وہ لفظوں سے اپنے تصور کی رو قارئین کے تصور سے ملادیتا ہے۔ یہی کمال ہے کسی سچے تخلیق کار کا۔ ڈاکٹراسلم فرخی کا یہ کمال ’’نگارستان آزاد‘‘ میں عروج پر نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں آزاد کا شخصی خاکہ دیکھیے۔
’’میاں آزاد کی بیس اکیس برس کی عمر، سبزہ آغاز، لباس میں مولویانہ انداز کی جھلک، چوڑا پھیلا ہوا چہرہ، ستواں ناک، روشن آنکھیں، کشمیری خط وخال، گورا رنگ، آواز میں نوجوانی کے زور کی جھلک، بہت ٹھیر ٹھیر کر شعر پڑھتے رہے، ہر شعر پر داد طلب نظروں سے محفل کی طرف دیکھتے، مگر معمولی ہوں ہاں کی آوازیں آتی رہیں۔ مقطع پر اُن کے استاد بھائیوں نے بڑا غُل مچایا۔ استاد خاموش رہے۔ ایک بڑے میاں کہنے لگے، ’’بالکل استاد کا سا رنگ ہے۔ انشاء اﷲ ترقی کرو گے۔ اسی طرح کہتے رہو۔‘‘
ڈاکٹراسلم فرخی صرف ظاہر کی تصویر کشی نہیں کرتے۔ حوادثِ زندگی، باطنی کیفیات و احسا میں جو ارتعاش پیدا کرتے ہیں ان کی جھلک بھی دکھاتے ہیں۔ گرد و پیش کی مرقع نگاری بھی ھ چلتی ہے۔ محمدحسین آزاد پر لکھتے ہوئے انھوں نے ان کے خاندانی حالات، ان کا بچپن اور پرورش و پرداخت کے ہر مرحلے کو بڑی دلسوزی سے لکھا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو مشہور صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیاؒ سے خاص عقیدت تھی۔ اس عقیدت کا اظہار ان کی کتابیں ’’دبستان نظام‘‘، نظامؒ رنگ، صاحب جی سلطان جیؒ اور فرید و فرد فریدؒ جیسی بیش بہا کتابوں میں ہوتا ہے۔ ’’دبستان نظامؒ ‘‘، حضرت نظام الدین اولیاؒ اور ان کے زیر سایہ تربیت و پرورش پانے والے عالمی شہرت کے حامل حضرت امیر خسروؒ ، خواجہ حسن سنجریؒ ، مورخ ضیاء الدین برکیؒ اور سیرنگار امیر خوردؒ کے علمی اور ادبی کتابوں کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے بعض اور بزرگان دین مثلاً غوث الاعظمؒ ، حضرت داتا گنج بخشؒ ، خواجہ غریب نوازؒ ، خواجہ فرید الدین گنج شکر کے بارے میں مختصر لیکن بڑی اہم کتب مرتب کیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی کی توجہ بچوں کے ادب پر بھی رہی۔ انھوں نے بچوں کے لیے حضرت سلطان جیؒ ، حضرت امیر خسروؒ ، میرا من، مرزا غالب، ڈپٹی نذیر احمد، مولانا شبلی، مولانا حسرت موہانی اور مولوی عبدالحق کے بارے میں مستند معلومات پر مبنی دلچسپ کتابیں مرتب کیں اور شایع کروائیں۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی پرگو شاعر تھے، فی البدیہہ کہنے میں بھی کمال حاصل تھا۔ انھوں نے شاعری پر نثر کو فوقیت دی جو شاید ان کی عالمانہ مزاج سے قریب تھی۔ ان کا کلام جو بکھرا ہوا ہے اسے سمیٹنے اور شایع کرنے کی ضرورت ہے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کے لیے بھی ڈاکٹر اسلم فرخی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ نو برس سے زائد عرصے تک بحیثیت مشیر علمی و وادبی اس ادارے سے وابستہ رہے۔ اس دوران بہترین تحقیقی کتب کی اشاعت ہوئی۔ انہی کی ایما پر عزیز حامد مدنی نے جدید اردو شاعری جیسی اہم کتاب دو جلدوں پر تحریر کی جس کے کئی ایڈیشن انجمن سے شایع ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر اسلم فرخی عظیم انسان تھے۔ انہیں عالمِ باعمل کی بہترین مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کی یاد کے ساتھ ایک فیض رساء ہستی کا پیکر تصور میں آتا ہے۔ ادیب اور مدرس ان کی شخصیت کے دونوں حوالوں کو یکجا کریں تو وہ اپنی ذات میں پورا دبستان تھے۔ ان کا جدا ہوجانا ایک عصر کے خاتمے کی طرح محسوس کیا جارہا ہے۔