وہ نوخیز
لچے لفنگے
گلیوں میں آوارہ پھرتے
موبائل فون سے کھیلتے
یاروں کو ایس ایم ایس کرتے
بقر عید پر
اونٹوں کے سر کاٹنے کی ویڈیو بناتے بناتے
عفریت میں ڈھل گئے ہیں
اب وہ غیرت کے نام پر
سسکتی ادھ مری لاش بنتی بہن
بیچ بازار میں پھینک کر
یوٹیوب پر اپ ڈیٹس لوڈ کرتے ہیں
پھانسی کا ڈر
نہ مستقبل کے ڈوب جانے کی فکر
بچا ہی نہیں کچھ تو کھوئیں گے کیا
غربت اور جہالت میں پل کر بڑے تو ہوئے پر
بدذاتیوں کے ہنر سب جانتے ہیں
ایمبولنس تو بلاتے نہیں
بے چارے انجان ہیں
ہاں مگر کوئی خدا ترس
گھر سے چادر لا کے ڈھانپ دیتا ہے
سسکتی برہنگی یا
بہتے خون سے گھبرا کر
جس پہ مکھیاں بھنکتی ہیں اور
تماش بینوں کی آنکھیں بھی
مگر بوسیدہ چادر کے نیچے
انگلیاں اب بھی کپکپا تی ہیں
ہونٹ
اب بھی سسک رہے ہیں
بھائی ۔۔۔
مجھے ہسپتال تو پہنچا دو
میں مر رہی ہوں
پر کوئی سنتا نہیں
سادیت پسند سب
لائیو ویڈیو دیکھنے میں مصروف ہیں
خامشی سے دفن کر دی گئی
مگر
گلیوں میں کرکٹ کھیلتے
بچوں نے دیکھی جو اس کی قبر
کھیل چھوڑ کر آگئے
جنگلی پھول چگ لائے کہیں سے اور
فاتحہ پڑھی
نئی امید پھر سے بندھی
دنیا ابھی اتنی بھی تاریک نہیں
اک کرن جاگتی ہے