بورژوا مفکرین کے نزدیک ادب میں سیاسی یا فلسفیانہ نظریہ کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ فلسفہ اور نظریہ ادب کو راس ہی نہیں آتے۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان کی اپنی داخلی دنیا خود اتنی وسعتیں اور رنگینیاں رکھتی ہے کہ ادب کو سماجی اور سیاسی مسائل اور حقائق کو اپنا موضوع بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ادب صرف تفریح ومزاح کا محوربن کر رہ جائے اور انسان کو سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اوراخلاقی شعور نہ دے سکے۔ترقی پسند مصنف،ادب کے اس بورژوا نظریہ کو علمی سطح پر ٹھکراتا ہے کہ اس نظریہ سے ادب اپنے پیامبرانہ مقام سے گر جاتا ہے۔ترقی پسند نظریہ ادب کے نزدیک عصر حاضر میں ادب کے لیے اپنا پیا مبرانہ کردار ادا کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ انسان دشمن استحصالی قوتیں آج جتنی طاقتور اور سائنسی لحاظ سے منظم ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور مقامی استحصالی قوتوں نے تیسری دنیا کے تین وسیع بر اعظموں میں معاشی،فوجی اور سیاسی تسلط سے جس طرح عوام کی زندگی کو جہالت،بیماری،ناداری اور سماجی قباحتوں کی نذر کر رکھا ہے اس سے پہلے سائنس اور ٹیکنالوجی کی طاقت سے لیس ہو کر انسان دشمن قوتوں نے معاشرے کے کسی دور میں بھی دنیا کے اتنے وسیع خطے پر کبھی اتنا معاشی،سیاسی اور اخلاقی فساد برپا نہیں کیا تھا۔
بورژوا مفکرین نے ادب میں یہ عقیدہ بھی راسخ کردیا ہے کہ مصنف سماج یا عوام کے لیے نہیں لکھتا بلکہ صرف اپنی مسرت کے لیے لکھتا ہے اور سماجی زندگی کے تقاضوں سے لاتعلق رہتا ہے۔ یہ نظریہ ایک خود فریبی ہے کیونکہ جب ایک مصنف کی تحریر چھپتی ہے تو اسے قارئین پڑھتے ہیں اور اس سے اثر بھی لیتے ہیں۔ترقی پسند نظریہ ادب کے تحت مصنف ہر حالت میں اپنے لیے نہیں بلکہ سماج کے لیے لکھتا ہے ۔وہ ادیب جو اپنی تحریروں میں ذہنی انتشار،زندگی کی لایعنیت اور بے مقصدیت کا اظہار کرتے ہیں ان کے یہ خیالات بھی سماج پر مہلک اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے بورژوا ادیبوں کا یہ نظریہ کہ ادیب اپنے لیے لکھتا ہے سراسر ایک ذہنی فریب ہے۔ادیب سماج کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے سماج سے بالا نہیں ہو سکتا ادب اور سماج کا رشتہ ایک اٹوٹ رشتہ ہے کیونکہ خود ادب سماج کی پیداوار ہے۔ اور اس طرح یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ ترقی پسند ادب فرد اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کر دیتا ہے کیونکہ ترقی پسند ادب فرد کو سماج سے الگ ایک اکائی کے طور پر اس کے نظریات اور افکار کو سمجھنے کی کوشش کو ایک غیر سائنسی رویہ تصور کرتا ہے۔اگرچہ ترقی پسند ادب نظریاتی بنیاد رکھتا ہے پھر بھی وہ ایک فن پارے کے فنی محاسن اور دیگر پہلوؤں کو بھی اہمیت دیتا ہے۔جہاں وہ انقلابیت اور طبقاتی شعور کی بیداری کو ادب کا فریضہ سمجھتا ہے جو اس کے کئی فرائض میں سے صرف ایک اہم فرض ہے وہاں وہ اسلوب،ہیئت اور تیکنیک کی جدت پر بھی زور دیتا ہے جس کے بغیر ادب ایک نظریہ کا سادہ سا بیا نیہ بن کر رہ جاتا ہے۔لیکن پراگریسومصنفین ادب کو محض چند فنی خصوصیات کا مجموعہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ وہ ادب برائے تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ کیونکہ ادب صرف ہیئت یا اسلوب کے لوازم سے تشکیل نہیں پاتا بلکہ ادب کی بنیاد اس کا مواد ہے۔ اور مواد کا رشتہ انسانی زندگی سے ہے جس کے مسائل تاریخ،معاشیات،سماجیات،سیاسیات،بین الاقوامی تعلقات،نفسیات،اخلاقیات فلسفہ اور دوسرے علوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی پسند ادب ایک طرف زندگی کی مادی اساس کا احساس دلاتا ہے تو دوسری طرف انسان کی داخلی کیفیات اور لطیف جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور لوگوں میں جمالیات اور تہذیبی رچاؤ بھی پیدا کرتا ہے۔
بورژوا ادیب دانستہ طور پر یہ نہیں بتاتے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ،جابر کون ہے اور مجبور کون۔اس حقیقت کو چھپانے کے لیے وہ اس خیال میں پناہ لیتے ہیں کہ انسان مجبور محض ہے۔ وہ استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کے بجائے صبر،شکر اور قناعت کا درس دیتے ہیں۔ اور اسے نظام فطرت بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
تیسری دنیا کے ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں کو بورژوا ادب کے ان مرگ آفریں نظریات کا مقابلہ کرنا چاہئے جنہوں نے تیسری دنیا کے ادب کو اس طرح کی صورتحال سے دوچار کردیا ہے یہ مقابلہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم ترقی پسند نظریہ ادب کے تحت جدید ادبی تیکنیکوں کو اپنائیں لیکن ان میں رجائیت،سماجی حقائق،طبقاتی شعور اور انسانوں کی داخلی کیفیات جیسے مضامین پیش کریں کیونکہ ادب میں مشاہدہ ،تجربہ اور علم ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
تیسری دنیاکے سماجوں میں بورژوا قوتیں صحا فیوں ادیبوں اور دانشوروں کی خدمات حاصل کر لیتی ہیں جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں کو ایک خاص نہج پر چلایا جا سکے تا کہ ان میں طبقاتی شعور بیدار نہ ہونے پائے اور وہ حالت موجود پر مطمئن رہے۔بورژوا طبقہ تیسری دنیا کے عوام کے ذہنوں میں ایک ایسی قدامت پرستی راسخ کر رہا ہے جو اس کے معاشی سماجی سیاسی اور فکری ارتقاء کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔بورژوا ادب استحصالی معیشیت کے حوالے سے خاموشی اختیار کر کے در اصل اس کا دفاع کرتا ہے۔طبقاتی شعورکے تصور کو پس پردہ رکھتا ہے عوام کو جہالت ،غربت بیماری ،ناداری اور پسماندگی سے لاپرواہی سکھا تا ہے۔معاشی استحصال اور ناانصافیوں کے خلاف آواز نہ اٹھا کر اسے قبول اور برداشت کرنے کی تلقین کرتا ہے۔قاری کو خارجی حقیقت کے ادراک سے اغماز سکھا کر اسے حسیت کا دلدادہ بناتا ہے۔اجتماعیت کے تصور کو نظر انداز کرکے اسے انفرادی خودغرضی اور مفاد پرستی سکھاتا ہے اور نتیجہ کے طور پر جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی پر مبنی رویے جنم لیتے ہیں۔بورژوا ادب سماج کے استحصالی طبقوں کو نظر انداز کرکے جدید نو آبادیاتی نظام کی پشت پناہی کرتا ہے۔انسانی ذہن پر فراریت ،سامراج دوستی، سمجھوتہ ،مفاد پرستی اورا ذیت کوشی مسلط کرتا ہے۔سماج کے اہم ترین مسائل کی اہمیت کو قاری کے ذہن میں سایہ فگن ہونے ہی نہیں دیتا اور ادب کی بنیاد عقلیت پسندی کی بجائے مجرد تصورات پر رکھتا ہے۔بورژوا مفکرین کے نزدیک نظریہ سے ادب پروپیگنڈہ بن جا تا ہے، اور اس میں ادبیت ختم ہو جاتی ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو یہ نا ممکن ہے کہ کسی تحریر یا فن پارے میں کوئی نظریہ نہ ہو۔ہر تخلیق کار کا بحیثیت انسان کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے۔بورژوا ادب میں بے مقصدیت،قنوطیت، لایعنیت تاریخ کے خاتمے اورنظریات کے خاتمے جیسے رجحانات بذات خود نظریہ ہیں۔ اس لیے نظریہ کی موجودگی ہرفن پارے میں ہوتی ہے۔ ہر انسان میں ہوتی ہے صرف اس کی نوعیت مثبت یا منفی ہو سکتی ہے۔بورژوا طبقہ ہر اس ادب کو پروپیگنڈہ کا نام دیتا ہے جس میں سماج کی سیاسی اور معاشی زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ترقی پسند ادب کسی فن پارے کے مواد کی ادبی اہمیت قائم رکھنے کے لیے ہیئت،تکنیک اور اسلوب کو لازم و ملزم سمجھتی ہے۔اعلیٰ فنی تشکیل کے بغیر اعلی ادبی تخلیق کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی فن پارہ فنی تشکیل کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا تو وہ واقعی پروپیگنڈہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔لیکن اگر فلسفہ یا سیاست فنی تشکیل میں ڈھل جائے تو ادب اپنی ارفع حیثیت کم نہیں کرتا اور نہ ہی اسکی ادبیت کم ہوتی ہے۔ادب میں زندگی کے موضوعات یا سماجی ،سیاسی مضامین کے انعکاس کو پروپیگنڈہ قرار دینا بورژوا نقاد کی کم فہمی ہے۔ بورژوا مصنفین نے ادب کو حقیقت پسندی، سائنسی فکر،جمہوری رویوں، جدید طبعی اور سماجی علوم سے بہت دور کر دیا ہے۔بورژوا ادبیوں کی ادبی زبان او ر تحریریں دور ازکار علامت نگاری،اساطیری، خیالی اور ماورائی طرز بیان میں الجھ کر رہ جاتی ہے۔ بحث اور اختلاف رائے کی تمام تر گنجائش کے ساتھ حرف آخر کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی پسند تحریک جو در حقیقت انسان دوستی کی تحریک ہے۔اس نے انسان کو کائنات میں سب سے اہم قرار دیا ہے اور ہر چیز کو قائم شدہ روایتی انداز سے دیکھنے کے بجائے خود انسان کے اپنے نقطہ نگاہ سے دیکھا ہے۔