میں کوئی عام فوٹوگرافر نہیں ، جنگ اور اس کی ہولناکیوں کو تصویر کرنا میرا ہنر ہے ۔ جتنا زیادہ دل فگار منظر ہو کیمرے کی آنکھ میں قید کر کے دنیا میں آگاہی پھیلانے کو اتنی ہی موثر چوٹ لگاتا ہو ں ،میری تصویریں امن کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اپنے بینرز پر سجاتی ہیں ۔
ایسے ہی ایک مشن پر اپنے شکار کی تلاش میں بھٹکتا ہوا حالیہ خانہ جنگی کے دوران بے گھر ہو جانے والے پناہ گزینوں کے کیمپوں کی طرف آ نکلا تھا ۔چھوٹے بڑے ترپال کے لاتعداد بوسیدہ خیموں کی قطاروں کے درمیان پھٹے حالوں میں کھیلتے ہوئے بچوں میں سے ایک ، پانچ چھ برس کی ننھی لڑکی پر میری نگاہ جم گئی ۔میں نے سوچا ۔۔۔. ہمم … یہ بالکل مناسب ہدف ہے ، میں اپنی ویب سائٹ کے کور پر لگاؤں گا تو دنیا چونک اٹھے گی ، لیکن۔۔۔. اس بچی کے چہرے میں جانے ایسا کیا تھا کہ میں اپنی کاروباری سوچ پر خود ہی شرمندگی محسوس کرنے لگا ۔بچی اتنی چھوٹی تھی کہ اس کی تصویر لینے کے لئے اس کے والدین کی اجازت لینا ضروری تھا جومیرے پروفیشنل طریقہ کار کا لازمی جزو تھا ۔
میں نے بچی کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف متوجہ کیا ، وہ ٹھٹک کر میری طرف دیکھنے لگی ۔میں نے پوچھا ” تمھاری ماں کہاں ہے ؟ ” یہ سننا تھا کہ بچی کا چہرہ یکسر پیلا پڑ گیا اور اس کی آنکھوں میں اتر آنے والی خوف کی پرچھائیوں نے جیسے مجھے لرزا کے رکھ دیا ۔وہ تڑپ کے بولی ” کیوں ؟؟؟ تم میری ماں کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو ؟ اس کی آواز میں ارتعاشاس بات کا غماز تھا گویا وہ بے اندازہ طور پر ڈر گئی تھی ،ابھی میں اسے مطمئن کرنے کو مناسب جواب سوچ ہی رہا تھا کہ ساتھ والے خیمے کا پردہ ہٹا اور کسی نے آدھا چہرہ نکال کر جھانکا ۔۔۔ وہ شائد اسی بچی کی ماں تھی میں نے جلدی سے اپنا اجازتی کارڈ دکھایا اورپیشہ ورانہ انداز میں اپنے آنے کا مقصد بتا کر اس کے یہاں تک پہنچنے کا احوال پوچھنے لگا۔۔درمیانی عمر کی پریشان حال ، ملگجے کپڑوں میں ملبوس اڑی ہوئی رنگت والی خاتون جو کبھی گوری چٹی اور خوشحال رہی ہو گی جیسے منتظر ہی تھی کہ کوئی اس کا حال پوچھے ۔اس نے تو کسی توقف کے بغیر ہی اپنی داستان غم سنانا شروع کر دی ” ہمارے شہر میں لڑائی تو کئی سال سے ہو رہی ہے ۔۔۔. جانے کس بات پر ۔۔۔وہ پہلے بھی میرے بھائیوں اور چچا کے بیٹوں کے سر کاٹ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔. میرے چھوٹے بھائی کو تووہ میری بچی کے سامنے سے گھسیٹتے ہوئے لے کر گئے اور گلی میں لے جا کر اسے بکرے کی طرح ذبح کر ڈالا .تھا ۔۔۔… آہ ۔۔۔. کیا کیا بتاؤں ۔۔۔وہ کتنے ظالم ہیں ، .وہ سانس لینے کو رکی اور پھر کسی بریک فیل ہو جانے والی ریل گاڑی کی طرح ٹوٹی پھوٹی پٹڑیوں پر رواں ہو گئی ۔۔۔…” ہم ہر دن ایک ڈرکے عالم میں جی رہے تھے … لیکن اس رات جب ہماری گلی میں بھی بکتر بند گاڑیاں گھس آئیں ۔۔۔.. اورآسمان سے اتنے گولے برسے کہ سب کچھ راکھ کا ڈھیر بن گیا ۔۔۔.. ہمارے گھر کی پچھلی چھت بھی گرگئی ۔۔۔میں ، میرے دونوں بچے میرا شوہر اور اس کے بھائی کے گھر والے سب ایک چھوٹے سے کمرے میں ساری رات چھپے بیٹھے رہے ۔۔۔… پھرپوٹلیوں میں تھوڑا کھانا بھر کر ہم جنگلوں میں بھاگ نکلے "۔۔۔. وہ اب خلاؤں میں جھانک رہی تھی ۔۔۔. اور اس کی آنکھوں کی ویرانیاں آدھے لپٹے ہوئے چہرے کے باوجود اپنے اطراف کو ایک عجیب سی اداسی میں مبتلا کر رہی تھیں . حالانکہ دن کافی روشن تھا اورسورج ہمارے سروں پر اپنی تمام تر تمازت کے ساتھ برا جمان تھا … لیکن پھر بھی مجھے ایکدم سے گہرے اندھیرے کا احساس ہوا۔۔۔. میں نے آنکھیں ملیں اور اس کی طرف دیکھا وہ بھی اپنی آنکھوں میں آجانے والے آنسو پوچھ رہی تھی ۔۔۔وہ پھر گویا ہوئی ۔۔۔. ” ہمارے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگ تھے جوبھاگ رہے تھے … اندھا دھند ۔۔۔پھر ہم بارڈر کے قریب پہنچ گئے ۔۔۔… وہاں لگی خار دار تاروں کی باڑھ میں پہلے ہی سے بنے راستوں کو کشادہ کرنے میں کئی نوجوانوں نے ہمیں وہاں سے نکالنے میں مدد کی ۔۔۔۔۔۔ میرے شوہر نے بچوں کو کسی کھلونے کی طرح اچھال کر کھائی کے اس پار میرے دیور کی گرفت میں دے دیا ۔۔۔ایک لمحے کو تو لگا جیسے مریم کھائی میں ہی گر گئی ” ۔۔۔ میں نے نوٹ کیا اس نے پہلی بار بچی کو نام سے پکارا تھا ۔۔۔..وہ پھر خواب ناک لہجے میں بولی ” میرا دل دہل گیا اور میں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا ۔۔۔. لیکن پھر دیکھا ۔۔۔ میرا دیور اسے کندھے پر بٹھائے ہوئے تھا "۔۔۔…۔۔۔۔۔۔. وہ بار بار آسمان کی طرف دیکھتی اور خدا کا شکر ادا کرتی جاتی ۔۔۔.” .ہم نے سب سے محفوظ راستہ اپنایا مگر ۔۔۔. ہمیں وہاں کی پولیس کا بھی ڈر تھا کہیں وہ ہمیں نہ دیکھ لیں ورنہ پکڑ کر واپس وہیں بھیج دیئے جائیں گے جو پہلے ہمارا گھر تھا ۔۔۔لیکن اب جلتا ہوا جہنم ہے ۔۔۔ میری پڑوسن اور اس کے بچے تو کشتی سے نکلے تاکہ پولیس سے بچ سکیں ۔۔۔. مگر پتا نہیں ان کا کیا ہوا ۔۔۔.. میرے شوہر نے بھی ساری جمع پونجی کشتی والوں کو تھما دی تھی لیکن ہم میں سے کسی کو بھی تیرنا نہیں آتا ، میں نے ضد کی اور شکر ہے کہ اس بار مجھ سے بھی کہیں زیادہ ہٹ دھرم آدمی نے میری بات مان لی اور ہم سب کو بچانے کو میلوں پیدل چلنے کا فیصلہ کیا ” ۔۔۔… وہ اپنی بپتا پوری جزئیات کے ساتھ سنا رہی تھی ۔۔۔…پوٹلیوں میں بچا ہوا کھانا تیزی سے ختم ہو رہا تھا ۔۔۔.. جنگل کی خوف ناک فضاء چاند کی روشنی میں اور بھی پراسرار ہوتی جا تی تھی ۔۔۔.. چھوٹا زویاں میرے کندھے سے اترنے کو ہی تیار نہ تھا ۔۔۔میرے بازو شل ہو گئے تھے … میرا شوہر مریم کو گود میں اٹھائے ہوئے تھا اور باقی لوگ آگے نکل گئے تھے … ہم ان سے کافی پیچھے رہ گئے ۔۔۔. اس کے چہرے کا رنگ اڑ رہا تھا پھر اس نے جھرجھری لی جیسے کوئی دل دہلانے والی یاد سے پیچھا چھڑا رہی ہو … اب اس کے چہرے پر بیک وقت غصے اور اطمینان کے ملے جلے گدلے اور صاف رنگ دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔.وہ بالکل خاموش تھی .. اس کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں ۔۔۔…میں نے اسے کریدنا مناسب نہ سمجھا ۔۔۔.میرے لئییہ سب کچھ نیا نہ تھا … یہاں آنے والے ہر شخص کے پاس ایسی یا اس سے بھی زیادہ ہولناک کہانیاں تھیں ۔۔۔.. اسی دوران میں نے اس بچی کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ اپنی بچوں والی جون میں واپس آ چکی تھی اور دوسرے بچوں کے ساتھ زمین پر پڑی ٹھیکریوں کو جوڑ کر کچھ بنانے میں لگی تھی ۔۔۔ اب وہ کھلکھلا رہی تھی اور اس کی آنکھیں بھی ہنس رہی تھیں ، مجھے اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ زمین سے اٹھی اور بھاگتی ہوئی پردے سے لگی ماں کی ٹانگوں سے لپٹ گئی ، ماں نے اس کے سر پر ہلکے سے چپت لگائی اور پیار سے اس کے بال سنوارے ۔۔۔ بچی اب اس کی گردن میں بانہیں ڈالے جھول رہی تھی ، اس نے سر اٹھا کر ماں کو اور پھر مجھے دیکھا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں روشن ستارے جگمگا رہے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا وہ بچی اس کی نہیں تھی مریم کی ماں نے اسے جنگل سے گزرتے ہوئے ایک
پیڑ کی کھوہ میں سے اٹھایا تھا اور اپنے ساتھ یہاں لے آئی ۔۔۔ معلوم نہیں اس کے گھر والوں پر کیا گزری
ہو گی ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔… اس رات جب میں سونے کے لئے بستر پر لیٹا ۔۔۔. تو میری نظر کے سامنے بچی کا وہی خوف
سے ستا ہوا چہرہ تھا اور اس کی آنکھوں میں رگوں میں خون کو منجمد کردینے والا ڈر تھا۔ جب پہلی بار
اس کی ماں کے بارے میں سوال کیا تھا۔