ٹکٹ چیکروں کا اوندھا پن ۔
لیزا ویسلے سے ملاقات۔
بخدا یقین جانیے۔اب وہ پانچ چھ رُوسی ٹکٹ چیکر جو ماسکو جانے والی لمبی ٹرین کے مختلف کمپارٹمنٹوں کے سامنے کھڑے مسافروں کو ڈیل کر رہے تھے نرے گھا مٹر اور احمق تھے تو اس میں نہ میرے تعصّب کو دخل ہے اور نہ ہی کِسی بغض کو ۔ وہ بلاشبہ ایسے ہی تھے اورایک دو نہیں سب کے سب۔
ان کی تو جیسے مت ماری ہوئی تھی یاسُوجھ بُوجھ ہی ناقص تھی۔یا وہ نئے نئے بھرتی ہوئے تھے۔ کِسی ایسے چُلبلے نٹ کٹ شیطان بچے کی طرح جس کے ہاتھ میں پہلی بار آ جانے والی گیند جسے وہ فرش پر ٹپا ٹپا کر اُس کی کھلڑی اُدھیڑ دینے کے درپے ہوتا ہے۔ وہ بھی ہمیں شیطان کی آنت کی طرح لمبے پلیٹ فارم پر بھگا بھگا کر مار دینے کے متمنّی نظر آتے تھے۔
ایک ہم جیسی ہابڑی (لالچی) عورتیں جاتے جاتے بھی کچھ نہ کچھ سیمٹنے کی گھمن گھیری میں ۔ اَے چلو ذرا فلاں جگہ تو دیکھی نہیں۔ اُس کا دیدار کر آئیں۔ مڑکِس نے پھیرا ڈالنا ہے۔ یا قسمت یا نصیب۔
صُبح سےVasilevsky آئی لینڈ میں تھیں۔ Kunstkamera انتھیروپولوجی میوزیم تو گویا ایک طرح دنیا کی قوموں کی ابتداء سے انتہاء تک کا کچّا چٹھا تھا۔بچوں کے دلچسپ کھیل کے اسبا ق تھے۔ میں گھومی ضرور پر بے دلی سے۔ میر ی جان پیٹرزبرگ یونیورسٹی میں پھنسی ہوئی تھی جو ساتھ ہی تھی۔
چار گھنٹے ہم نے یونیورسٹی میں گذارے۔ اُس کے سرسبزلا ن میں بیٹھ کرنیوا کے ساحلوں پر اس کی عظیم الشان عمارت کو دیکھتے اور اپنے زمانہ طالب علمی کو یادکرتے۔
’’ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا‘‘ گنگناتے ۔ اور یہ کام ایسا مست کردینے والا تھا کہ وقتی طو ر پر تھوڑا سا واپسی کا بھول بھی گئی تھیں۔ پھر ٹیکسی ہی لی اور میٹرو کا خیال چھوڑا کہ کہیں دیر ہی نہ ہوجائے ہوٹل سے سامان اُٹھایا اورسٹیشن آئے۔ پانچ سو روبل دیتے ہوئے جی تو دُکھا۔ کہ میٹروتو اسٹیشن کے عین سامنے دو قدم پر ہے۔
جو کام پچاس ساٹھ روبل میں ہو سکتا تھااُسے پانچ سو میں کیا۔ اب کھانے کی بھی طلب تھی۔
ریسٹورنٹ بڑا اعلیٰ تھا۔پر چاول جو سامنے آیا وہ تھا تو سفید پر موٹا تھا۔چلو سلاد نے ساری کمی پوری کر دی۔ بڑا مزے کا تھا ۔ ریسٹورنٹ کی چھت بڑی منفردقسم کی تھی۔ خموں والی۔ پورا سینٹ پیٹرز برگ اس پر پینٹ تھا۔
صدقے جاؤں رُوسی مصوروں کے ۔ خزاں کا منظر تھا۔ نیوا کے کنارے پر بلڈنگز۔ کناروں کے پتھر درخت. سڑکیں. اُن پر چلتے پھرتے لوگ۔ خزاں کی کیفیات کے سب عکس۔کیا فنکاری تھی کہ نظر ہٹنے کا نام نہ لیتی تھی۔
گاڑی ابھی پلیٹ فارم پر رُکی بھی نہ تھی جب ہم اُس کے سر پر جا چڑھیں۔
اور اب چیکروں کے ہتھے چڑھ کر فٹ بال کی طرح لُڑھکتی پھرتی تھیں۔ چھٹے چکر نے مجھے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق غُل غپاڑہ مچانے پر مجبور کر دیا تھا۔
میری بکواس انہیں قطعی سمجھ نہیں آئی۔ پر شور شرابا کا فائدہ ضرور ہوا کہ وہ سنجیدہ ہوئے اور کمبخت کتنے ظالم نکلے کہ جہاں میں کھڑی شور مچاتی تھی وہی ہماراڈبہ تھا۔
سیٹوں پر پہنچ کر پھُرتی سے گدّے بچھانے اور تکیوں کے غلاف چڑھانے میں جُت گئیں کہ جتنی جلد ی ہو سکے۔ لیٹیں اور سو جائیں۔
اور میں تو لیٹ بھی گئی ۔ پر ایک رُوسی دیونی نک چڑھی سی جس کا ایک ایک انداز ’’آدم بو آدم بو‘‘ کے غصیلے نعرے لگاتا تھا،وارد ہوئی۔ اُس کی ایک ہی نظر ایسی ظالم نمک بھری تھی کہ جس نے مجھ جیسی برساتی گوڈوئے کو پل جھپکتے میں سُسری کی نیند سُلا دیا۔
جس برتھ پر میں لیٹی ہوئی تھی ۔ اُس کا نمبر 48تھا۔ اور وہ نمبر خاتون کے پاس تھا۔ مجھ اوندھی کو تو اتنی عقل ہی نہ آئی کہ اپنا نمبر بھی چیک کر لیتی۔
چپ چاپ میں اُٹھی۔ بستر کو اوپر والی برتھ پر پٹخا۔
’’اب چڑھوں گی کیسے؟‘‘ اندیشے سر سرائے۔
’’ ہائے جوانی‘‘۔ دل نے کہا۔
’’ بیس سال قبل آتی تو پٹوسی مار کر اوپرچلی جاتی۔
اُس ہتھنی نے سیٹ پر بیٹھ کر کوٹ اُتارا۔ اُسے کھونٹی سے لٹکایا۔ عینک نکالی۔ آنکھوں پر چڑھائی اور تھیلے میں سے اخبار نکال کر مطالعے میں جُت گئی۔
اب میں اور مہر النساء اس سوچ میں کہ بالائی منزل پر جانے کا آسان ترین راستہ کون سا ہو کہ گوڈے گٹے اور ہڈی پسلیاں محفوظ رہیں۔
اِس کوہ پیمائی کے آسان اور سہل امکانات ابھی زیر غور تھے کہ ایک اور حملہ ہوا۔ لمبا چوڑا مرد عین میرے سامنے کی دوسری برتھ پر اپنا چھوٹاسا بیگ پھینکتا بندر جیسی قلابازیاں مارتا سیٹ پر براجمان ہوگیا ۔
اب کچھ کہنے سُننے کی ضرورت تھی ۔ میں اور مہر النساء ٹک ٹک کبھی عورت کو دیکھتے جو بدتمیز ہمسائیوں کے حقوق سے ہی آگاہ نہ تھی اور جس نے اُن پر محبت بھری نگاہ تو چھوڑ ئیے نفرت بھری بھی ڈالنی پسند نہ کی تھی۔ کہ چلو بندہ ازراہ تفّنن ہی دیکھ لیتا کہ جس غریب کی گھر بدری ہوئی ہے ذرا دیکھوں تو سہی بیچاری کن حالوں میں ہے؟
ہم برّصغیر کے لوگ تو بڑے اچھے ہیں۔ آنکھیں چار نہیں ہوتیں کہ باتوں کا پٹارہ کھُل جاتا ہے اور بس ایک آدھ گھنٹہ میں ہی پوتڑوں تک واقفیت حاصل کرکے ٹیلی فونوں کے نمبر اور آئندہ ملاقاتوں کے راستے ہموار کر لیتے ہیں۔
گاڑی کو چلتے ہوئے جب پون گھنٹہ گذر گیا میں واش رو م کے لئے اُٹھی کہ ضروریات سے تو فارغ ہو جاؤں پھر مہم جوئی کا بھی سوچوں گی۔
ٹائلٹ بند تھا۔ اِن اوپن کوپوں کے سامنے سنگل سیٹ والی ایک لمبی قطار تھی۔ میں ایک خالی نشست پر بیٹھ گئی۔
اور تبھی میں نے اُسے دیکھا تھا۔
وہ کیسا چہرہ تھا؟ اپنائیت اور نرمی کی پھوار میں بھیگا ہوا۔ رُوسی تو قطعی نہیں لگتاتھا۔گہیواں رنگ پر قدرے موٹے نقش جو اُس کا تعلق بّرصغیر سے ظاہر کرتے تھے۔
آنکھیں چار ہوئیں تو جیسے سارا چہرہ مانوسیت کی روشنی سے بھر سا گیا۔ بات کی تو پتہ چلا کہ رُوسی ہے۔ میں نے دل میں کہا۔
’’تو یہ بھی اُن چند معدودے دانوں میں سے ایک ہے جو خال خال کہیں نظر آتا ہے۔‘‘
یہ لیزا ویسلے تھی ۔ اگرچہ رُوسی تھی پر لندن میں پیدا ہوئی ۔وہیں بڑھی پلی۔ وہیں شادی کی ۔ نوکر ی بھی وہیں کرتی ہے ۔ پر آباؤ اجدادکے رُوس آنا نہیں بھولتی۔ کوئی دو تین سال بعد چکر لگاناضروری سمجھتی ہے۔
لیزا محبت میں گندھی کوئی پینتیس کے دائرے میں گھومتی عورت تھی جس نے مجھے اپنی برتھ پر بٹھاتے ہی اپنی ہتھیلی پر ٹافیاں رکھ کر پیش کیں۔محبت کے اِس انداز نے مجھے برسوں پہلے کا ایک واقعہ یاد لا دیا تھا۔ یہ میر ی نئی نئی شادی کے دن تھے۔ میں اپنی ماں کے گھر آئی تھی۔ میرے شوہر مجھے چھوڑ کر جانے لگے تو میں اُنہیں رُخصت کرنے ڈیوڑھی تک آئی۔ جانے سے قبل انہوں نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دو تین ٹافیاں ہتھیلی پر سجا کر مجھے پیش کیں۔ اپنے پکّے پیٹھے پن کے باوجود مجھے اُس کا یہ محبت بھرا معصوم سا انداز اچھا لگا۔
اور مجھے لیزا بھی ایسی ہی لگی تھی۔ میں نے ٹافی اُٹھائی۔ اُس کا ریپر اُتارا اور منہ میں ڈال لی ۔
میرا تعارف کیا تھا۔ چار لفظوں کا ۔ ایک منٹ میں مکمل۔ پر لیزا ویسلے اپنے پُرکھوں کے حوالے سے ایک تاریخی کردار تھی۔
دفعتاً لیزا نے پوچھا تھاکہ میں اولڈ ر باط گئی ہوں۔
میں نے اُسے بتایا کہ ماسکو میں میرا قیام زیادہ نہیں رہا۔ اب یہاں ٹھہروں گی اور سبھی قابل ذکر جگہیں دیکھوں گی۔
اولڈ رباط کی لین نمبر ۷ میں اُس کے پردادا کا بُہت خوبصورت محل نما گھر تھا۔ اُس کا پردادا ماسکو کا بڑا جاگیردا ر تھا تو وہیں زار کی ریاستی ڈوما کا اہم ترین اور وفادار ترین وزیر بھی پرراسپوٹین نے۔ ۔۔۔۔۔۔۔
راسپوٹین کے نام پر میں چونکی تھی۔ میرے منہ میں گھومتی پھرتی ٹافی میرے کلّے کی دیوار کے ساتھ لگ گئی تھی۔ میر ی آنکھیں اشتیاق اور تجسّس سے پوری طرح اُس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔
راسپوٹین نے زار نکولس کو بُری طرح بد ظن کر رکھا تھا اور زار بھی کیسا کم ظرف اور احمق انسان تھا کہ جسے ا پنے خیر خواہوں، ہمدردوں، محبت کرنے والوں ،غداروں اور بے وفاؤں میں تمیز ہی نہ تھی۔
پھر یو ں ہوا۔ لیزا رُک گئی اور اُس نے مجھ سے پوچھا۔
’’آپ کو معلوم ہے کیف کہاں ہے ؟
زمانہ قدیم میں رُوس کااوراب یوکرائن کا کیپٹل سٹی ہے۔ اگر میں غلطی پر نہیں ۔‘‘
میں نے لیزا کو دیکھا تھا۔
باوجو د یکہ میرا پردادا سٹولی پن بڑا دلیر اور صاحب اختیار آدمی تھا۔ اپنی حفاظت سے کبھی غافل نہیں رہتا تھا۔ کیف میں سٹیج ڈرامہ ہو رہاتھا۔ زار مہمان خصوصی تھا۔ میرے پرداد ا بھی مدعو تھے۔
عام حالات میں وہ ہمیشہ بُلٹ پروف جیکٹ پہنے رکھتے۔ اُن کے ساتھ محافظوں کا ٹولہ بھی ہوتا ۔ جانے کیا ہوا؟ جانے سے قبل انہو ں نے بلٹ پروف جیکٹ بھی نہیں پہنی اور محافظوں کو بھی ساتھ نہیں لیا۔ میرے دادا نے اصرار کیا۔ میری دادی اور پر دادی دونوں نے کہا۔
پر انہوں نے کسی کی نہیں سُنی اور چلے گئے۔
وہ رسکی کور ساکوف کے ڈرامے سے بُہت محظوظ ہوئے تھے اور انٹرول میں اپنے ہم مرتبہ لوگوں سے مل کرخوش گپّیوں میں مگن تھے۔ زار اُن سے اگلی نشست پر تھا۔
تبھی ایک نوجوان شام کے تقریباتی لباس میں ملبوس ٹہلتا ہوا اُ ن کے پاس آیا. رُکا اور ایک دم اُ س نے دو فائر کئے۔ میر ے پرداد ا فوراً زار کو بچانے کے لئے اُس پر جھُک گئے۔ انہوں نے زار کے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور اُس کی درازی عمر کی دعا مانگی۔
جب انہیں ماسکو لایا جا رہاتھا انہوں نے کہا تھا۔
’’میں بچوں گا نہیں۔ لیکن مجھے اپنے مرنے پر ذرا بھی دُکھ نہیں۔ میرے لئے خوشی کی بات یہی ہے کہ میرا زار زند ہ ہے۔ ‘‘
لیزا بہت خوبصورت انگریزی بولتی تھی۔ دھیرے سے بولی تھی۔
سچ تو یہ تھا کہ میرے پردادا کے خاندان کے ساتھ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم والا معاملہ ہوا تھا۔
زار نے کیا عزت افزائی کرنی تھی۔ خاندان انقلابیوں کی ہٹ لسٹ پر آگیا تھا۔ تو جب انقلاب آیا۔ میر ے دادا لندن آ گئے تھے۔ اور ارباط والا ہمارا وہ خوبصورت گھرجسے میرے پردادا نے بُہت شوق سے بنوا یا تھا۔ اور جو فن تعمیر کے حوالے سے ماسکو کے چند بہترین گھروں میں شمار ہوتا تھا میرے پردادا کی ٹیکسٹائیل مل کے مزدوروں کو الاٹ ہوگیا تھا۔
کہیں ستّر کی دہائی میں جا کر میرے والد نے مقدمہ لڑا اور واگزار کرایا۔ آ ج کل وہ ایک کنڈر گاٹن انسٹی ٹیوٹ کو کرایہ پر دیا ہوا ہے۔
لیزا کمال کی عورت تھی۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اِس نشست میں ایک لمحے کے لئے بھی مجھے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی تھی۔
اُس نے ماسکومیں اپنا ایڈریس میری کاپی پر لکھا۔ ٹیلی فون نمبر لکھے۔ اور جب میں واش روم جانے کے لئے اُٹھتی تھی۔ میں نے اُس سے درخواست کی تھی کہ وہ اوپر برتھ پر چڑھنے میں میری مدد کرے ۔
واش روم سے باہر آکر تھوڑی دیر کے لئے میں نے بند شیشوں میں سے باہر دیکھا۔ مجھے کچھ یوں لگا۔ جیسے میں گھنے جنگلوں کی کِسی نیم روشن غار میں سے گذر رہی ہوں۔ کہیں دُور اِن جنگلوں میں کوئی کوئی جُگنو ٹمٹماتا ہے۔ کہیں جُگنوؤں کے گُچھے سے محسوس ہوتے ہیں۔ یقیناً یہ گھروں میں جگمگاتی برقی روشنیاں تھیں۔میں زیادہ دیر نہیں ٹھہری۔ مجھے لیزا کا خیا ل تھا۔
مہر النساء سو چکی تھی۔ٹیبل پر میرے پاؤں رکھوا کر اُ س نے مجھے اوپر دھکیلا اور یوں میں نے آسانی سے اِس پُل صراط جیسی منزل کو سر کر لیا۔
میں نہیں جانتی تھی میں کن مرغزاروں میں تھی۔ یا دریاؤں کی کھاڑیوں میں یا محلوں میں یا محلوں کے کمروں میں کِسی آوارہ روح کی طرح بھٹکتی تھی۔
کوئی دھیرے دھیرے میرے بازو کو ہلاتا تھا۔ مجھے آواز دیتا تھا۔
میں نے نیند سے بوجھل آنکھوں کو بمشکل کھولا تھا۔ میں حیران رہ گئی تھی۔لیزا کھڑی مجھے کہتی تھی۔
’’واش روم سے ہو آئیے، ماسکو آنے میں صرف آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے۔ پھر یہ بند ہو جائے گا۔ ‘‘
مجھے لیزا پر کِس قدر پیار آیا تھا۔ مجھے اپنی گفی یا دآئی تھی۔ میری بیٹی جواپنی ماں کا ایسے ہی خیال رکھتی ہے۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے