لوگ غلط کہتے ہیں کہ زندگی حرکت کا نام ہے۔اگر ایسا ہے تو مجھے جلدی سے قبر میں اتار دیں۔کیونکہ میں دس سال سے اس شیشے کے ڈربے میں کھڑا ہوں۔مجھ سے زیادہ جمود کا شکار اور کون ہوگا۔میرے لیے یہ دس سال ایک صدی سے کم نہیں۔میں کراچی کے سب سے بڑے ہسپتال کا ایک بہت چھوٹا سا ریسپشنسٹ ہوں۔میں شیشے کے اس پار کھڑا دن میں ہزاروں چہرے دیکھتا ہوں۔یہ شیشے کا پردہ میری زندگی میں ایسا حائل ہوا ہے کہ مجھے ہر شخص خود سے شیشے جتنا ہی دور محسوس ہوتا ہے۔یہ پردہ کبھی تو چہرے دھندلا دیتا ہے اور کبھی بہت صاف کر کے سامنے لاتا ہے۔میں شیشے کے اُس پار کھڑا بس یہ دیکھتا ہوں کہ کس میں صاف نظر آنے کی ہمت ہے ۔۔۔۔۔
یہ بڑا ہسپتال عمارت کے لحاظ سے بڑا نہیں ہے بلکہ بڑے بڑے لوگوں کے آنے سے بڑا ہوگیا ہے۔یہاں کے سارے ڈاکٹر فارن کوالیفائیڈہیں۔بھئی ہمارے امراء کوئی اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ پاکستان سے پڑھے ڈاکٹروں سے علاج کروائیں۔اور سب سے بڑی بات کہ کیوں کروائیں؟ہمارا نظام تعلیم کتنا ناقص ہے یہ ہم سے بہتر کون جانتا ہے تو ہمارے بادشاہ کیوں جانتے بوجھتے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں؟اور ویسے بھی یہ اپنے ملک کے عام سے ڈاکٹر تو بس عام عوام کے لیے ہیں۔جس کو فائدہ ملتا ہے ملے،نہیں ملتا تو عوام کو کیا ضرورت ہے زندہ رہنے کی۔۔۔۔

اپنی جاب کے آغاز میں میرا شمار حساس لوگوں میں ہوتا تھا۔کسی کی لاش واپس جائے تو گھنٹوں اداس رہتا تھا،کوئی بہت زخمی ہے تو اس کے لیے بے چین ہوں۔یہ میری بہت ابتدائی حالت ہے ۔اب ایسا نہیں ہے کیونکہ میں جان چکا ہوں کہ ہمدردی،محبت،انسانیت،شفقت ہسپتال کے ماربل کے فرش تلے دفن ہوچکا ہے۔اب علاج،توجہ اور محبت کا مستحق صرف وہ ہے جو ہسپتال کا بل فورََا کلیئر کرکے جائے ۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ دنیا میں کچھ نہیں رکھا۔ہم سب مسلسل ایک مایا کا طواف کررہے ہیں۔کسی انجان جزیرے کی طرف چلتے ہوئے جسے موت بھی کہتے ہیں ہم ٹھوکریں کھاتے جارہے ہیں۔چوٹیں لگتی ہیں تو سہلا کر پھر چل پڑتے ہیں،رک جائیں تو غیب سے دھکے آنے لگتے ہیں،بھاگیں تو زور سے گرتے ہیں،آہستہ چلیں تو ناامید ہوتے ہیں۔کبھی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑتے اور اگر پکڑ لیں تو کندھا اتار کر چھوڑتے ہیں۔ہم سب ظالم ہیں۔اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ظلم کرتے ہیں۔میری یاداشت میں ایسے ہزاروں ظالم ہیں جو ہسپتالوں کی روزمرہ کی زندگی میں نظر آجاتے ہیں۔اور میں ہر ظالم دیکھ کر ہنس دیتا ہوں۔یہ دیکھ کر اچھا لگتا ہے کہ اپنا قبیلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔میں نے بھی بہت ظلم کیے ہیں ،اپنے کئی دور پرے کے رشتے داروں کو اپنا ماں یا باپ بنا کرپیش کیا ہے۔ان کو انتظار سے بچانے کے لیے کئی بار قطاروں میں بے ایمانی کی ہے۔تو کیا کرتا؟انسان ہوں ۔مجھے بھی مزا آتا ہے جب گاؤں کے لوگ میرے اونچے منصب کی تعریفیں کرتے ہیں۔مجھے بڑے بڑے ڈاکٹروں کا خاص بندہ سمجھتے ہیں اور کچھ تو اتنے معصوم ہیں کہ مجھے ہی ڈاکٹر سمجھتے ہیں۔کیا مجھے دھوکے اور بے ایمانی کی آکسیجن لینے کا کوئی حق نہیں؟کیا ہوا جو میرے کچھ غریب دیہاتی مریضوں کی وجہ سے کسی امیر کو انتظار کرنا پڑا؟کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ان کی وجہ سے ہمیں مرنا پڑ جاتا ہے۔اپنے اردگرد میں ہونے والی اموات کا جائزہ لیں۔یہ ساری امپورٹڈ بیماریاں یہ لوگ ہی تو لائے ہیں۔کہیں کوئی اوپر غذا،پانی،دوائیوں میں کرپشن کرتا ہے اور کینسر ہمیں اپنے اندر پالنے پڑتے ہیں۔معاہدے کہیں اور ہوتے ہیں اور بم سے ہم پھٹتے ہیں۔تو کیا ہوا جو میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ایسا ہی ہے سب ۔۔۔۔۔۔ لیکن بھگتنا تو سب کو ہے۔کچھ ہمارے سامنے بھگتتے ہیں اور کچھ چھپالیتے ہیں۔میرے سامنے بھی ایک بار ایسا ہی واقعہ ہوا۔میں نے پہلی بار ایسا دیکھا کہ کسی نے اتنی جلدی بھگتا ہو،لفظ بھگتے سے آپ مجھے کوئی مذہبی یا کوئی عام روایتی سوچ رکھنے والا شخص نہ سمجھیے گا میں تو ایک مادی سوچ رکھنے والا بڑا نیچ انسان ہوں جو قسمت اور اچھے برے اعمال کے فلسفے میں نہیں الجھتا۔اگر کوئی نیک آدمی یہ قصہ سنے گا تو کان پر ہاتھ رکھ کر پہلے استغفار پڑھے گا اور اسے مکافات عمل کا نام دے کر چلا جائے گا۔لیکن میرے خیال میں یہ زندگی ہے اور کچھ نہیں۔
وہ عام سی صبح تھی۔جب سورج نے آنکھیں کھولیں تو میں ٹائی اور تسمے کَس چکا تھا۔ہسپتال میں داخل ہوتے ہی مجھے ایک ایمر جنسی کی اطلاع ملی۔میں اس کی انٹری کرہی رہا تھا کہ مجھے سامنے وہ نظر آیا جو میں نے کئی بار دیکھا ہے لیکن سیری کبھی نہیں ہوئی۔کیا کروں غریب آدمی ہوں۔میں ایسے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتا کیونکہ یہ ایک وی آئی پی دکان کا ایک خوبصورت اینٹیک ہوتے ہیں۔بہت قرینے سے کارنر پر سجے ،خوشبو سے مہکتے ہوئے ،پر کشش ۔انہیں کیا پتہ کہ تھوڑی سی گندگی زندگی کی علامت ہے ۔انسانیت کی علامت ہے ۔مگر یہ سچ ہے کہ وہ اینٹیک تھا پرکشش اور اس کی مالیت کروڑوں میں تھی ۔کلائی میں مہنگی گھڑی،کالے رنگ کا تھری پیس سوٹ،میں دور سے بتا سکتا ہوں کہ یہ
کسی امیر ملک کی امیر دکان سے لیا گیا ہے،جوتوں پر گرد کا ایک ذرہ مائیکروسکوپ سے بھی نہیں مل سکتا۔پاؤں زمین پر رکھے ہو تو گرد پڑے نا۔۔۔۔یہ سب کچھ میرے لیے بہت خاص نہیں ہے کیونکہ میں یہ روز دیکھتا ہوں لیکن اس لڑکے پر یہ سب کچھ بہت جچ رہا تھا۔وہ اتنا خوبصورت تھا کہ میں لڑکا ہوکر اس سے نگاہ نہیں ہٹا پا رہا تھا۔اکثر امیر لوگوں کے اچھے کپڑے دیکھ کر میں چونکتا ہوں کیونکہ وہ انہیں امیر بنا رہے ہوتے ہیں لیکن اس لڑکے پر وہ لباس غرور کرتا نظر آتا تھا۔وہ ہسپتال کے داخلی دروازے کے پاس سیدھا کھڑا تھا۔کبھی گھڑی دیکھتا تو کبھی چھتوں اور دیواروں پر نظر ڈالتا ۔وہ جلدی میں نظر آتا تھا۔’’
اوئے! کھانے کا دل چاہ رہا ہے اس کو؟‘‘میرا ساتھی دانت نکالے میری محویت پر طنز کر رہا تھا
’’لڑکا ہی ہے۔۔۔۔۔گارنٹی دے سکتا ہوں‘‘
لیکن ہزار لڑکیاں اس پر قربان ہیں ۔میں نے دل میں کہا
’’ایکسیڈنٹ کیا ہے کمینے نے۔۔۔۔چھوٹے سے بچے کا‘‘
اچھا!!!تو یہ بھی ظالم ہے۔’’یہاں کیوں کھڑا ہے؟‘‘
’’آپریشن ہورہا ہے بچے کا۔۔۔۔شاید ہی زندہ بچے‘‘
کچھ دیر بعد جب پولیس بھی آگئی تو پتہ چلا کہ بچہ مرگیا ہے۔میلے کچیلے کپڑوں میں غریب گندے ماں باپ بھی آگئے تھے۔اور اب منظر یہ تھا کہ داخلی دروازے کے پاس بچے کی مردہ لاش اسٹریچر پر پڑی تھی۔پولیس ،ماں باپ،ڈاکٹر اور وہ لڑکا لاش کو گھیرے کھڑے تھے ۔لگ رہا تھا کہ کوئی’’ڈیل‘‘چل رہی ہے۔چیک بک سامنے آئی۔ایک چیک پولیس کے پاس اور دوسرا ماں باپ کے ہاتھ میں آیا۔لڑکے نے کوٹ جھاڑا اور چلا گیا۔بچے کی بقیہ زندگی دو لاکھ میں خریدی اس نے۔۔۔۔۔
میں بھول چکا تھا کیونکہ یہ روز کی بات ہے ۔پورے دن کی چیخ و پکا ر میں افسوس کرنے یا سوچنے کا وقت کسے ملتا ہے۔یہاں تو سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔میری ڈیوٹی شام سات بجے ختم ہوجاتی ہے۔میں نے خود کو ریسپشن کی چار دیواری سے نکالا اور مین گیٹ کی طرف بڑھنے لگا کہ سامنے سے کئی لوگ ایک اسٹر یچر کو گھسیٹتے ہوئے لے جارہے تھے۔میں نے ذرا اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی تو شناسائی کا ایک کرنٹ سا وجود میں گزر گیا۔بس بالوں کی سیٹنگ ہی تو خراب ہوئی ہے،باقی تو سب ویسا ہی ہے۔اور اب کوٹ بھی نہیں پہن رکھا تھا،پتہ نہیں وہ گھڑی بھی تھی یا نہیں۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں صبح دیکھے ہوئے بشاش چہرے کو نیم مردہ حالت میں دیکھ کر میں دکھی سا ہوگیا۔میں حیران ہوں کہ بے ہوشی کی حالت میں بھی اُس کا چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا میں نے صبح دیکھا تھا ۔جب وہ چیک کاٹ رہا تھا تب بھی ۔بہت عرصے بعد میں نے پھر سے انسان ،زندگی ،خدا اور تقدیر پر سوچنا شروع کر دیا۔میرے باہر کی طرف اٹھتے قدم پھر واپس آگئے اور میں پاس پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔میں جاننا چاہتا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے اور اب اس کا کیا ہوگا۔میں ابھی ان عالمگیر مسئلوں کو حل نہ کرپایا تھا کہ سا تھ والی کرسی پر دو حضرات آکر بیٹھ گئے۔میرے ساتھ ایک موٹے ڈیل ڈول والا آدمی تھا اور اس کے ساتھ ٹو پیس میں ایک بوڑھا امیر۔موٹا آدمی میری طرف اپنی دیوار جیسی چوڑی پشت کیے بیٹھا تھاجس کی وجہ سے میں اس کی شکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔صرف اس کی بھاری آواز سن رہا تھا۔امیر آدمی بالکل گنجا تھا۔چہرے سے شاطر اور عیار لگتا تھا لیکن میری کیا بات ہے مجھے تو سارے امیر ایسے ہی لگتے ہیں۔
’’ہن سناؤں تسی۔۔۔کم تے ٹھیک ہویا نا۔۔۔گڈی دا حال ویکھیا تسی‘‘موٹے آدمی کی آواز خوشی سے چھلک رہی تھی۔وہ بچوں جیسی بے تابی سے اپنا کوئی کارنامہ بتا رہا تھا۔
’’ہاں ۔۔ہاں ٹھیک ہے۔پولیس کے آنے پر تھوڑا ڈرامہ کرنا پڑے گا تمہیں۔۔۔تین چار مہینے تھانے میں رہ سکتے ہو نا؟‘‘
’اوہاں جی۔۔۔کیوں نہیں۔کوئی گل ای نہیں‘‘
’’تمہیں پانچ لاکھ واپس آنے پر مل جائیں گے‘‘امیر آدمی جان چھڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا
’’کیسی گَل کیتی ہے تسی۔۔۔پنج لکھ نی تے مُنڈے کڑ ھی(گھڑی)پائی ہوئی ہے۔کجھ زیادہ کرو جی‘‘موٹا آدمی دوڑنے کے انداز میں اس
کے پیچھے لپکا
’’اپنی اوقات میں رہو‘‘
میں وہاں سے نکل آیا۔اس سے زیادہ کی میری ہمت نہیں۔میں گھر تک پیدل ہی چلتا گیا۔اس لیے نہیں کہ میں دکھی تھا یا میرے انسانی جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔بس اس لیے کہ میں سوچ رہا تھا کہ میری قیمت کیا ہوگی؟میری کلائی میں تو ڈیڑھ سو روپے کی گھڑی ہے ۔اور جیب میں بس کا کرایہ ۔میرے لنڈے کی شرٹ اور پینٹ کے کتنے پیسے دیے جائیں گے ؟کیا امی ابو میری قیمت وصول کرلیں گے ؟کیا اُس آکسیجن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جو زندہ رہنے پر ہم فضا سے وصول کرتے ہیں؟اور وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جو میں نے پودوں کو دینی تھی اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ؟کیا آنکھ کی روشنی ،کانوں کی آواز،ہاتھوں اور ٹانگوں کی حرکت ،دل کی دھڑکن ۔۔۔۔۔جسے بس ایک جھٹکے میں روک دیا جاتا ہے ۔ان سب کی کوئی قیمت نہیں ۔۔۔۔خیر چھوڑیں یہ سب ۔۔۔آپ بتائیں کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ آپ کی کیا قیمت ہے؟کتنے لاکھ؟برائے مہربانی سوچیں۔۔۔۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے