آگہی ڈستی ہے ماہکان رات کی
اور برابر شراکت ہے سر گوات کی
آپ مدام سیم و زَر سے تُلے جاتے ہیں
ہم کو حاصل نہیں قدر خیرات کی
محوِ حیرت ہوں امید رکھوں یا ڈر
تیرے انکار کی تیرے اثبات کی
کونج رخشان سے کب کے لوٹے ہیں یار
بانجھ موسم ہے کیا اب کے برسات کی
زندگی وقت پہ گھر تو آیا کرو
شہر زَد میں ہے پھر سے فسادات کی
بیچ تیرے میرے جذبہ حائل ہے جو
ایک رشتہ ساکرب و کرامات کی
بچے پڑھتے ہیں درسِ مساوات روز
گھر میں ہے تذکرہ ذات وزیارت کی