ہوا کا شور یہ بتلا رہا ہے
ہماری سمت دریا آ رہا ہے

مجھے وہ دیکھتا ہے جس نظر سے
وہی اک زاویہ تڑپا رہا ہے

ابابیلوں کی منقاروں میں کنکر
ہمیں یہ خواب کیا سمجھا رہا ہے

جو قسمت کی لکیروں میں نہیں ہے
ہمارے زائچے بنوا رہا ہے

یہ آئینہ بنانے والے ہم ہیں
تو آئینہ کسے دکھلا رہا ہے

کوئی دریا کے اس جانب نہیں ہے
مگر اک ہاتھ سا لہرا رہا ہے

نمک کی کان ہیں اب میری آنکھیں
سمندر اک یہاں ٹھرا رہا ہے

یہ آنسو آنکھ سے پونچھو شمامہ
یہ پانی آگ کو بھڑکا رہا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے