وہ جو اب ہر کسی سے جلتا ہے
اصل میں آپ ہی سے جلتا ہے

ہم تو خوش ہوں جو ذکرِموسیٰ ہو
سامری، سامری سے جلتا ہے

اِک دیا تھا سو تیل ختم ہوا
اب مِری زندگی سے جلتا ہے

اسمِ خالق سے کیا عذاب آیا
آدمی، آدمی سے جلتا ہے

رشک ہے ہی نہیں حسد ہے یہ دوست
تْو مری آگہی سے جلتا ہے

سانی ہر رات اس پری کا مکاں
اک عجب خامشی سے جلتا ہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے