فن جو نادار تک نہیں پہنچا
ابھی معیار تک نہیں پہنچا

اس نے بروقت بے رخی برتی
شوق، آزار تک نہیں پہنچا

عکسِ مے ہو، کہ جلوۂ گل ہو
رنگِ رخسار تک نہیں پہنچا

حرفِ انکار سربلند رہا
ضعفِ اقرار تک نہیں پہنچا

حکمِ سرکار کی پہنچ مت پوچھ
اہلِ سرکار تک نہیں پہنچا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے