کتاب کا نام: مستیں توکلی
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت : 392
قیمت : 500 روپے
مبصر : عابدہ رحمان
ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ کتاب ’مستیں توکلی‘ جب پڑھنا شروع کی تو اسی انداز سے جیسے کوئی بھی کتاب پڑھی جاتی ہے لیکن پڑھتے پڑھتے اس خوب صورت کتاب میں میرے وجود کا ذرہ ذرہ اس طرحinvolve ہوتاگیا کہ جو بیان سے باہر ہے۔ مست کی شاعری اور پھر مری صاحب کا اندازِ تحریر۔۔۔ ایک خاص کیفیت ہے جو پڑھنے والے پر یوں طاری ہو جاتی ہے کہ پھر اس دائرے سے باہر کافی عرصے تک نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ دل کی دھڑکن اور اور سانسوں کا ردھم نا ہم وار ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس قدر خوب صورت انداز میں لکھا ہے کہ پڑھتے ہوئے یوں لگتا کہ جیسے اُس وقت وہ خود مست کے آس پاس ، اس کے بہت قریب، اس کے کہیں بہت ہی اندر موجود تھے کہ جب مست پر عشق وارد ہوا تھا۔ اس کے فلسفے، اس کے عشق کو اس قدر جزیات کے ساتھ معلوم ہونا، اسے اس شدت سے محسوس کرنا۔۔۔ْ؟ اور ان کا یہ احساس قاری کو بھی اپنے طلسم میں جکڑ لیتا ہے۔
مست کے فلسفہء عشق سے واقفیت سے پہلے ایک عام انسان کی طرح میں بھی مجازی اور حقیقی کے چکر میں پڑی تھی کہ عشقِ مجازی واقعی عشقِ حقیقی کی راہ ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ زندگی کی کتاب کے اگر دس ابواب ہیں تو ان دس ابواب کا پہلا باب عشقِ مجازی پر ہے باقی سارے عشقِ حقیقی پر۔ لیکن مری صاحب نے اس کتاب میں عشق کو مجازی اور حقیقی کے ترازو میں ناپنے والوں کو سرزنش کی ہے۔ عشقِ مجازی کا کوئی وجود نہیں ہوتا کہ سچ بھی کبھی مجازی ہو سکتا ہے؟!
اٹھارویں صدی عیسوی میں پیدا ہونے والا یہ عاشق، دیوانہ فلسفی جو ایک بلوچ زمین پر ، بلوچ خاندان میں پیدا ہوا۔ میں اپنی تمام تر محبت اور پورے احترام سے ان کو ownکرتی ہوں کہ ولی کسی کی میراث نہیں ہوتے۔ محبت کی طرح وسیع، عشق کی طرح بے ساختہ اور ہمہ گیر شاعر و فلسفی، ایک ولی کی تعلیمات کسی خاص قوم یا علاقے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ عالم گیر ہوتی ہیں کہ ان کا پیغام تو محبت ہے جہاں تک پہنچے، مست ہم سب کے ہیں۔
بارش کی رم جھم، بارش کی شرارت، بے کل ہواؤں نے حسن کو عیاں کر دیا اور مست کہہ اٹھا:
زالا دھلینتہ، مں نی ژہ کاراشتغاں
دل لے گئی وہ عورت اب کسی کام کا نہیں رہا
اور پھر تڑپتے ہوئے چیخے؛
برَ و بیزاراں مست و مدہوشی
میں دنیا سے بے گانہ مست و بے ہوش ہو گیا
چلہ ای شف پہ نندغ و آزار
زمستاں کی تکلیف دہ رات آنکھوں میں کٹ گئی
اور محبت نے مست کی شحصیت کی تکمیل کر دی اور عشق کی اس بے تحاشا انرجی نے ایک عام انسان کو مست بنا دیا۔ حسن کے ڈسنے سے مست کی کُوک چاروں اور گونجنے لگی۔
دوازدہیں بنداں نیستنی عیوماں انگھاں
اس کے کسی بھی عضو میں کوئی عیب نہیں
اور پھر کہا کہ:
نشانیا ں اس کی یہ ہیں کہ اس کی آنکھوں کے کنارے سرخ ہیں
ستواں ناک ہے اور ابرو باہم ملے ہوئے ہیں
مری صاحب لکھتے ہیں کہ ،’’ پتہ نہیں حسن کے لیے کیا کیا اوزان و پیمائش وضع کیے گئے ہیں۔ ارے گز تو کپڑا ناپنے کے لیے ہوتا ہے، لیٹر پٹرول ناپنے کے لیے۔ مگر حسن کو ناپنا ۔۔۔ ؟؟ ‘‘اور یہ پڑھ کر میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ تیر جاتی ہے کہ انھوں نے حسن کی مروجہ تعریفوں پر لعنت بھیج کر اس کو زیرو سے ضرب دے دی۔ بلا شبہ حسن تو مکمل ہے اپنے محبوب، اپنے عاشق کی نظر میں، کہ دنیا کی ساری خوب صورتی کو محبوب کی ایک جنبشِ ابرو پر قربان کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بدن کی خوشبو پر دھواں کیا جا سکتا ہے۔
تمھارے بدن کی خوشبو اس قدر میٹھی ہے جیسے بارش برسنے کے بعد
گل زمین کی خوشبو ہوتی ہے
مست کی محبت میں لتھڑے ہوئے ڈاکٹر صاحب ،آگے لکھتے ہیں کہ پھر روح کی آوارگی نے مست کو چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ محبت جو ایک دیوانگی ہے، وہ کہاں عاشق کو ایک جگہ ٹکنے دیتی ہے اور یہی ہوا ،اس بے قرار عشق نے مست کو وہ دوڑیں لگوائیں،وہ امتحان لیا،ایسی آزمائش میں ڈالا کہ بس۔۔۔!درد کی شدت، مہر کی بے قراریوں پر مست بھاگ اُٹھا اور پھر ساری عمر بھاگتا رہا۔
گڈہ کاں مست کہ تدڑی ڈیہاں درکفاں
بھاگ کھڑا ہوتا ہے مست کہ تدڑی کے پہاڑ پہ چڑھے
لیکن درد سے بھی بھاگ پایا ہے کبھی کوئی۔۔۔؟؟ مہر جو اس کے اندر تھا، خود سے کہاں بھاگتا وہ۔ لیکن حرکت ہی تو تازگی ہے، ورنہ زندگی ایک گندہ اور بدبودار جوہڑ بن جائے۔ مری صاحب کہتے ہیں کہ وہ زہر بھرے سانپ کی طرح لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے۔ زہر اسے تھمنے رکنے نہیں دیتا۔مست، مست نہ رہا ،سمو بن گیا۔ اس کا پورا وجود اس کے عشق میں ڈھل گیا۔عشق، جو روح کا کاروبار ہے۔ مست کہتا ہے:
سمل کی روح کے سلام و پیام کل ہی موصول ہوئے
روح پاگل ہے جس کی بدولت شاعری کرتا رہتا ہوں
اور پھر اس غم کو غلط کرنے کے لیے وہ کہتا ہے؛
میرا چلم لاؤ اُسے اندوہوں کی اوٹ بنا لوں
اس میں چرس ڈالتا ہوں بھنگ چڑھاتا ہوں
عاشقِ مست شاہ محمد مری لکھتے ہیں کہ ، ’’چنگاری کو محسوس کرنے کے لیے کہ ضروری ہے کہ آپ خود محبت کے جال میں پھنس جائیں۔ درد ایسا درد کہ الامان، غم ایسا غم کہ لولاک تاریک ہو جائے، دکھ ایسا دکھ کہ فطرت کا ہر ذرہ ماتم کناں رہے۔‘‘ اور مجھے مستیں توکلی پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس عاشقِ مست نے سمو سے مست کی محبت اتنی ہی شدت سے برتی، اسی طرح وہ عشق ان پر بیتا، اسی طرح انھوں نے عشق کو سہا ،جس طرح کہ ان کے مرشد مست نے۔
عشق و محبت کی معراج دیکھیں تو دل دھک سے رہ جاتا ہے کہ سمو کا حصول نا ممکن ہو گیا تھا کہ مست جسمانی تمناؤں کو روح کی بلند پروازیوں کے نیچے کچل چکا تھا۔ دو مختلف آئینز ایک دوسرے کو attract کرتے ہیں لیکن وہ دو کب رہے۔۔۔؟ سمو مست کی روح میں تحلیل کر چکی تھی۔ اور تب ہی وصال سے پہلے صرف اک جھلک دیکھنے پر مست بے ہوش ہو گیا اور پھر سمو کی محبت کا یقین دیکھئے کہ ،، یہ اب کسی کام نہیں رہا، اور مست پکار اٹھا؛
عشق گدھا گدھی والی جنسی بات نہیں
د وست تھی آنکھیں ملیں، ملاقات ہو گئی
مست صرف عاشق نہیں ۔ وہ ایک درویش، فلسفی اور ایک ولی تھے۔
محبت مجازی نہیں ہوتی بس حقیقی ہی حقیقی ہوتی ہے۔ سچ ہوتا ہے۔ ہاں مگر ایک منزل سے دوسری منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ محبت سے عشق، عشق سے وہ منزل کہ جب طبعی حصول کی ضرورت باقی نہ رہے اور پھر آخری منزل کہ جب ایک سچا عاشق اپنے عشق کو اس طرح Tackleکرے کہ پوری کائنات تک وسیع ہو جائے۔ سمو کی محبت پھیل کر ساری کائنات کو اپنے بازوؤں میں گھیر لے۔ مست اُس منزل پر پہنچ چکا۔
سموکے عشق میں مست نے دعا کی؛
برسات تمھاری نیم شبوں کی موسیقی بھری آوازیں
میری آواز سوکھ جائے جو میں تمھیں بدعا دے دوں
مست نے عورت کو سمو کی رعیت کہہ کر عزت وحرمت کے بام پر پہنچا دیا۔ خیرات ، دعوت، یا جشن میں سمو کی محبت میںآس پاس کے خیموں کی عورتوں کا’’ ونڈا‘‘لگ کیا جانے لگا۔ عورت کی برابری کی بات کی ۔ کھردرے اور نوکیلے پہاڑوں کو تڑوا کر شاہراہ بنوائی۔ اس نے کہا کہ مشقت اور محنت کرنا بہت اچھا ہے لیکن مشقت کا استحصال کرنا برا۔
میری محبوبہ گز نامی درختوں والی ریت پر گھسٹتی چلتی ہے
اور پھر سمو سے یہی عشق مست کو رزم سے بزم لے آیا۔ چمبھڑی کے میدانِ جنگ میں ہتھیار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پھینک دیے اور امن کا پرچار کہتے ہوئے کہنے لگا؛
اچھی نہیں جنگ کی واہیات باتیں
کیا اس کائنات میں مست کے علاوہ بھی ایسا کوئی عاشق ہے جو اپنی سمو کی آڑ میں پوری انسانیت کی فلاح چاہے۔۔۔؟
وطن سے محبت دوچند ہو گئی کہ یہ سمو کا بھی وطن ہے۔ وہ سمو کے بلوچستان کے ایک ایک پہاڑ اور ایک ایک ذی روح کا نام لے کر اس کی پیاس کا مداوا مانگتا ہے؛
برستے ہوئے آؤ تمھارے حتمی برسنے کی جگہ کا مجھے پتہ ہے
(ہاں) آؤ تمھیں ماہ رخ کا مضبوط خیمہ دکھاؤں
مست کے عشق کی بلندیوں کا یہ عالم تھا کہ جب سردارِ وقت نے اسے ایک طوائف کے ساتھ ایک کمرے میں بند کیا تو اس مضبوط کردار عاشق نے کہا؛
کنجر ی آنی چیار شفی ذونکاں
دیروئے گندہ عادتیں رنّاں
سملئے عہداواں نہ بھوریناں
مست کے عشق کی کیا کہیے کہ وہ تو اسے قبلہ ہی نہیں مانتا کہ جہاں اسے سمو دکھائی نہ دے؛
میں نماز نہیں مانتا ،تم جانو تمھاری نماز
میری سمو مجھے کسی جانب دکھائی نہیں دیتی
مست کا آئینہ، ڈاکٹر شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ ،’’ ہمارے دانا، حکیم ، خردمند، فہمیدہ اور غور وفکر کرنے والے اولیا کے فلسفے کا مغز نکال دیا جائے تو اولیا کے نام پر ایک عمومی غیر فعال، سکوت دوست اور جامد انسانوں کا گروپ قائم کیا گیا اور اس پورے نظام کا نام صوفی رکھ دیا۔ ہمارا مست ہماری معدنیات کی طرح ان کے ہتھے نہیں چڑھا اسی لیے بازاری بننے سے بچ گیاہے۔‘‘ اور یہ سب پڑھ کے میری تو دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ مست کو بازاری بننے اور درباروں کی راہداریوں میں تذلیل سے بچائے رکھے۔
مست کا سارا فلسفہ تلاش اور جدائی پر مبنی ہے۔ وہ مہر ہے اور صرف مہر۔ عشق و محبت کسی محنت کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اس نے ہونا ہوتا ہے تو بس ہو جاتا ہے ،۔۔۔بنا کسی محنت کے ۔۔۔بنا کسی ریاضت کے۔۔۔! مست پر محبت کی یہ دیوی مہربان تھی۔ مست صرف اور صرف محبت کرتا تھا ،جس کا مطلب ہے کہ وہ صرف اور صرف بغاوت کرتا تھا۔ یہاں تک کہ سمو کی وفات کے بعد بھی دنیا کی ہر چیز کو ٹھوکر پر رکھ کے کہنے لگا؛
پولغاں سموئے بدل پیدا شہ نواں
ڈھونڈو بھی تو سمو کا ثانی نہیں ملے گا
چاند راتوں کی ٹھنڈی اور دل گیر روشنی میں مست کی شاعری کو سن کر بچپن سے اپنے ریشے ریشے میں اتارنے والے شاہ محمد مری، مست کا سایہ، جنھوں نے اپنے دل کے درد کے ساتھ یہ کتاب تحریر کی۔ میں تو کہتی ہوں کہ ہر انسان کو اور ایک محبت کرنے والے انسان کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ اور مجھے یقین ہے کہ جو جو بھی اور جب جب بھی یہ کتاب ’مستیں توکلی‘ پڑھے گا تو ہر دفعہ گناہوں کی معافی کے چند سکّے ڈاکٹر صاحب کی جھولی میں بھی گرا کریں گے اور شاید ایک آدھ سکہ ہم جیسوں کی جھولی میں بھی۔
آخر میں ،مست کے عشق کے حیرت کدے میں جھانک کر’جی ترا سمو بیلی‘ تو کہوں گی ہی لیکن عاشقِ مست ڈاکٹر شاہ محمد مری کو بھی ضرور کہنا چاہوں گی ،’’جی ترا بابا جان!‘‘