جون کا ماہنامہ ’سنگت‘ ملا تو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ٹائٹل پر ہمارے بزرگ ماما عبداللہ جان جمالدینی کی تصویر تھی۔ جی ہاں یہ سالگرہ نمبر ہی کہلائے گا کہ ہمارے ماما کی ۹۴ ویں سالگرہ منائی گئی، ماشااللہ! اور اس لحاظ سے جون کی سنگت کی لڑی میں جو میں نے پہلا موتی پرونے کا سوچا تو وہ اداریہ ہی تھا جو ماما جمالدینی کی حیات، ان کی جدوجہد اور ان کے ساتھیوں کی ہمت اورحوصلے کی کہانی بیان کرتا ہے اور بہت خوب صورتی سے بیان کرتا ہے ۔ اللہ پاک ہمارے بزرگوں کا سایہ ہم پر قائم ودائم رکھے اور ہمیں کبھی بے بزرگ نہ کرے، آمین ۔
’چھوڑو صاحب ہمیں جینے دو‘۔۔۔ ارے کہاں چلے صاحب؟ آپ سے نہیں کہہ رہی بلکہ یہ نام ہے شمائیلہ حسین کے مضمون کا۔ کہتی ہیں کہ Feminism کوئی بلا، کوئی آفت شئے نہیں( جانے کیوں اسے آفت بنا دیا گیا ہے)، بلکہ ہر وہ انسان جو عورت کے حقوق کی بات کرے وہFeministہے۔ نہ ہی یہ بات درست ہے کہ اگر عورت معاشی طور پر خود کفیل ہوگی تو وہ ایک اچھی بیوی ثابت نہیں ہوگی۔ عورت کو تعلیم، علاج وغیرہ میں حصہ ملنا چاہیے اور پھر مست نے بھی تو عورت کے ونڈ کی بات بڑے زور و شور سے کی۔ ایک اچھی تحریر تھی شمائیلہ کی!
بات عورت کے حقوق کی چل نکلی تو چلئے شبیر رخشانی کے مضمون ، ’باتیں چند بلوچستانی با ہمت خواتین کی‘، کا ذکر کیا جائے جس میں انھوں نے مری صاحب کی کتاب’ عورتوں کی تحریک‘، کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا ہے کہ سٹور کرنے والوں کا گُر، گندم، جوار اور انگور وغیرہ کی کاشت اور پالتو جانوروں کو پالتو بنانا سب عورت نے ہی شروع کیا۔پھر ،سمو راج ونڈ تحریک، کا بتایا گیا جو مست کی پکار ہے، یقیناًیہ تنظیم عورتوں کے حقوق،جمہوریت اور انقلاب کے لیے جدوجہد کرے گی اور پھر چند با ہمت بلوچستانی خواتین کے ناموں اور کاموں کا بھی تذکرہ کیا گیا۔ اچھا مضمون ہے۔
چلئے آگے چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر مزمل حسین اپنے مضمون ،’احمد خان سرائیکی دوہڑوں کے بادشاہ‘، میں کیا کہتے ہیں۔ ارے واہ ! آغاز تو بڑا خوب صورت ہے کہ ’ بڑا اور مانا ہوا شاعر کون ہے اور یہ کہ جمالیاتی لطافتوں کے ساتھ ساتھ عمرانی تہذیبی، ثقافتی اور تاریخی شعور بھی من میں رکھتا ہو تو عظمت کے سفر کا آغاز ہوگا‘ ۔ دوہڑے کی حیثیت سرائیکی زبان میں بتانے کے بعدانھوں نے احمد خان کے دوہڑوں کی اس قدر تعریفیں کی کہ بھئی ہمیں تو ان کے دوہڑے پڑھنے کا اشتیاق ہی ہو گیا، پر حرام ہے کہ پورے مضمون میں ہمیں کوئی ایک بھی دوہڑہ پڑھنا نصیب ہوا ہو۔
سنگت کی لڑی کا ایک اور موتی سلیم کرد کا مضمون ’ یوسف عزیز مگسی‘ ہے جو کہ نام سے ظاہر ہے کہ ہمارے بہت بڑے ہیرو، روشن خیال، وطن و قوم دوست جناب یوسف عزیز مگسی کی زندگی، ان کی جدوجہد اور قربانیوں پر ایک تحریر ہے۔ اتنی بڑی شخصیت کو ایک مختصر سے مضمون تک محیط رکھنا مشکل کام ہے لیکن کرد صاحب نے اچھی کوشش کی۔
بات بلوچی زبان کی چاشنی کی ہو تو ہم بھی ایک بلوچی تخیلاتی مکالمے ’ ملا فاضل ماں لیمار کیٹا‘کی بات کر لیتے ہیں جو زلفی صاحب کلاسیکل شاعر ملا فاضل سے بلوچی زبان اور شاعری پر کر رہے ہیں جو کہ بلا شبہ ایک خوب صورت مکالمہ ہے۔
جی ہاں،’ بلوچستان تو جو بھی کرے گا نرالہ ہی کرے گا‘ بالکل ویسے ہی جس طرح شاہ محمد مری صاحب جو بھی کرتے ہیں نرالا ہی کرتے ہیں۔ کبھی بلوچی زبان پر لکھ رہے ہیں تو کبھی بلوچی تاریخ پر۔ پھر دیکھو تو بلوچستان کی بڑی شخصیات پر لکھ رہے ہوتے ہیں او ر اب کی بار انھوں نے بلوچستان سے دریافت شدہ fossils پر لکھا؛’ تین کروڑ سال قبل کا بلوچستان‘۔ نئی دریافت Balochitheriam سے ہمیں متعارف کرایا جو کہ بگٹی کے علاقے میں ماہر فاسلز ڈاکٹر کلایؤ فاسٹر نے ۱۹۰۸ء میں دریافت کیا۔ Balochitherium کی تفصیلات بڑے ہلکے پھلکے انداز میں اپنے قاری تک پہنچائی ہیں۔ایک مکمل معلوماتی مضمون۔
قلا خان خروٹی مئی کے حوالے سے اپنے مضمون ،’یوم مئی! تیری ساکھ سلامت‘ کافی خفا خفا دکھائی دیے کہ البرٹ ہال نامی سکول کا مالک نہیں جانتا تھا کہ البرٹ دراصل تھا کون۔ ارے خفا نہ ہوں کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کس سوچ کے تحت سکول کا یہ نام رکھا گیا ہوگا۔ لیکن آپ نے اپنے اس دکھ میں اپنے قاری کو شریک کیا تو کم از کم یہ فائدہ تو ہمیں ہو گیا کہ ہم جیسے بے خبر قاری بھی البرٹ رچرڈ پارسنز کی شخصیت، کام، جدوجہد اور قربانیوں سے واقف ہوئے۔ شکریہ بھائی!
’ ڈاکٹر روتھ فاؤ‘ پر ڈاکٹر مطہر ضیا اور صائمہ ارم لکھ رہے ہیں جو کہ بہت ضروری تھا کہ ہمیں پتہ تو ہو کہ ہمارے محسنوں میں سے کون کون ہیں۔ ایک اچھا مضمون ہے لیکن ہم انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں پتہ چلے گا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے بلوچستان کے کن کن علاقوں میں ہمارے لوگوں کی خدمت کی۔
ایک اور بلوچی تحریر ’پابلو نیرودا‘ کے نام سے اسحاق خاموش کی ہے جو انھوں نے چلی کے معروف شاعر پابلو نیرودا کی شاعری اور حالاتِ زندگی پر ایک کافی اچھا تبصرہ کیا ہے۔
سلمیٰ اعوان نے دمشق کی شاعرہ’ مونا عمیدی‘ سے ہمیں متعارف کرایا جو کہ ایک خوب صورت لکھنے والی اور ایک جاگی ہوئی شاعرہ ہیں، جنھوں نے اپنے لوگوں، اپنے ملک کے دکھ کو اپنی شاعری میں سمویا۔ تبصرے میں موجود ان کی شاعری پڑھ کر سلمیٰ اعوان کی بات بالکل درست لگی کہ وہ طویل تاریک راتوں میں نوید صبح کی مانند ہیں۔ خوشی ہوئی ان کے بارے میں جان کر۔
ٹرانسلیشن کے سلسلے میں Rijanik کے عنوان سے اس وقت دو کتابوں کے ترجمے چل رہے ہیں,جن میں پہلا ترجمہ روسی مصنف حمزہ رسول توف کی خوبصورت کتاب،’ میرا داغستان‘ کا ہے جو کہ غم خوار حیات ،’ کنا داغستان‘ کے نام سے بہ خوبی براہوی میں کررہے ہیں ۔ جبکہ دوسرا ترجمہ کرشن چندر کے ناول ’غدار‘ کا ہے جو عابدہ رحمان پشتو میں کر رہی ہیں ۔ مئی کے کے سنگت میں غدار میں کہیں کہیں ٹائپ کی غلطیاں ہیں۔
حال احوال میں تین رپورٹس تھیں یعنی سموراجئے ونڈ، سنگت پوہ زانت اور سنگت ڈسٹرکٹ کمیٹی ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر مالک کے دورہ ساہیوال کا احوال تھا ۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہاں کے لوگ ہمارے بزرگوں، ہمارے ہیروز سے واقف ہیں۔
کتاب پچار میں عابد میر نے ۲۰۱۶ کے سنگت کا جائزہ لیا تھا۔
کہتے ہیں کہ افسانہ وہ جھوٹ ہے جو سراسر حقیقت پر مبنی ہوتا ہے۔ جی ہاں ،اپنے ارد گرد کی سچی کہانیوں کو، ان کے کرداروں کوجھوٹے ناموں کے ساتھ سچی طرح سے پیش کرنا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے جس افسانے کا ذکر کرنا چاہوں گی وہ سبین علی کا ’ رات کا مسافر‘ ہے، جس میں انھوں نے محبت، یک طرفہ محبت اور وہ بھی Materialism کے پجاری سے محبت کو بیان کیا ہے۔ کچھ بہت ہی خوب صورت فقروں نے تو جیسے افسانے میں رنگ بھر دیے، جیسے؛ ’ مگر وہ اپنے آپ سے سوال کرتی آخر انسان آسمانوں سے وسیع محبتوں کو پیمانوں میں ڈال کر کیوں ماپتا ہے، مال و زر، ذات پات اور رتبے کے باٹوں میں کیوں تولتا ہے؟‘۔ ہاں مگر صرف خود سے محبت ہی پر ختم نہ ہوتا تو اور بھی حسین افسانہ ہوتا کہ اصل خوشی تو انسانیت سے محبت میں ہے۔
ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے گوہر ملک کے فوک ادب سے انتخاب کر کے ’جوں‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا جو کہ اچھا تھا۔
میکسم گورکی کا قصہ ،’ پارما کے بچے‘ کو صابرہ زیدی نے کافی اچھا ترجمہ کیا۔
’ لباس‘ ایک اور خوب صورت موتی ہمارے سنگت کی لڑی میں جو عورت کے استحصال سے متعلق ہے۔ بہت اچھی طرح مریم نے اس افسانے کو Treat کیا ہے۔کس نے یہ حق دیا ہے کہ مرد سارا دن کھیتوں میں کام کرتا ہے تو اسکا حق بنتا ہے کہ عورت کو مارے پیٹے اور عورت وہ سب برداشت کرے؟ ایک کمزور اور بزدل مرد کو اپنی شناخت سمجھنے والی تمھاری اپنی شناخت کہاں گئی؟ ہاں, مگرتسلی تو مجھے تب ہوتی جب وہ عورت اس ظلم پر احتجاج کرتی کہ ظلم سہنے والا بھی ظالم ہوتا ہے! سدا کی وفا کی پیکر۔۔۔!! کہیں کہیں الفاظ جیسے نمانی، دیکھت، آوت، موافق ,افسانے کی زبان سے میل نہیں کھا رہے تھے۔
محمد جمیل اختر کا ’خزانہ‘ ایک عام روایتی انداز میں لکھا گیا افسانہ تھا۔
ایک بہت ہی پُر فکر کہانی جو افسانہ تو نہیں ایک حقیقت ہے کہنا چاہیے ،’تاریک راہوں میں ‘ میں سلمیٰ جیلانی نے جھینگوں، مچھلیوں کی صنعت سے وابستہ غریب لوگوں کی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ایک بہت ہی تکلیف دہ حالت کہ جب غریب ممالک کے مجبوراً افراد جب مچھلی کے تاجروں کے ہتھے چڑھتے ہیں تو کس طرح ان کی تاریک راہوں کو مزید تاریک بنا دیتے ہیں۔ پڑھ کر سوچ کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔
کائنات آرزو کا افسانہ ’ روشنیوں کے شہر کی شہزادی‘ میں بتایا ہے اصل میں آزادی روح کی ہوتی ہے ۔ ایک غلام اور قید روح اونچے محلوں اور روشنیوں کی چکاچوند میں بھی غلام اور قید ہی رہے گی جب کہ آزاد روح کے ساتھ انسان قید خانے میں، غربت میں آزاد ہی رہے گا۔
’دوپہر‘ میکسم گورکی کا افسانہ جسے بہت ہی خوب صورتی سے صابرہ زیدی نے ترجمہ کیا ہے۔
اور لڑی میں شاعری کے موتی نا پروئے جائیں تو لڑی کیسے مکمل ہو۔ جابجا سنگت کے صفحات پر شاعری بکھری پڑی ہے۔ کچھ بس ٹھیک، کچھ اچھی اور کچھ بہت ہی اچھی شاعری ہے۔ ساحر لدھیانوی کی شاعری بھی چھپی جو میرا ، آپ کا ، ہم سب کا محبوب شاعر ہے۔ سید غریب شاہ کی دونوں نظمیں بہت ہی خوب صورت رہیں۔ کچھ ٹکڑے ہو جائیں ان دونوں نظموں کے؛
میرے مقابل کوئی نہیں ہے
میری انا ہے!
اور دوسری نظم کا ایک ٹکڑا کہ؛
میری سکونت بس زمین پر
یہاں تو لہجے ہیں برف جیسے
۔۔۔
۔۔۔
سو اب ضرورت کے سارے بندھن
وہ جوڑتے ہیں میں توڑتا ہوں!!