سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی جنرل باڈی کا اجلاس 19جون بہ روز اتوار کی شام مرکزی جنرل سیکریٹری عابد میر کی زیر صدارت پروفیشنل اکیڈمی کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے شرکا میں درج ذیل اراکین شامل تھے:جاوید اختر، ڈاکٹر لیاقت سنی، ڈاکٹر منیر رئیسانی، عابد میر، ساجد بزدار، آزات جمالدینی،حسن ناصر، غریب شاہ انجم، وحیر زہیر، شاہ محمد مری، خیرجان بلوچ، خالد نواب، بیرم غوری، فرید مینگل، سرور آغا، ڈاکٹر غلام محمد کھیتران، شبیر رخشانی، برکت اسماعیل، اعجاز بلوچ، بلال اسود، وصاف باسط، اویس معلوم۔
جنرل باڈی اجلاس کا ایجنڈا حسبِ ذیل تھا:
۔تنظیمی امور
۔ سنگت رسم الخط کمیٹی رپورٹ
۔ سنگت تعلیمی کمیٹی رپورٹ
۔ہم خیال تنظیموں سے روابط
۔ سنگت نصاب
۔ قراردادیں

ان امور پہ مرحلہ وار تفصیلی بحث مباحثہ کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۔ تنظیمی امور میں مسلسل غیر حاضر اراکین کا معاملہ پہلے زیر بحث لایا گیا۔ طے یہ پایا کہ وہ اراکین جو مسلسل بلاوجہ یا بلا اطلاع غیر حاضر ہیں،مرکزی ڈپٹی سیکریٹری ساجد بزدار اُن سے رابطہ کرکے کابینہ کو رپورٹ کریں گے، جس کے بعد ان اراکین سے متعلق کابینہ حتمی فیصلہ کرے گی۔
اس ضمن میں دوسرا معاملہ سالانہ چندے کا زیر بحث آیا۔ مرکزی فنانس سیکریٹری نے بتایا کہ اس وقت نوے فی صد اراکین کا چندہ وصول ہو چکا ہے۔ سات ہزار کے قریب رقم ان کے پاس موجود ہے۔
۔ رسم الخط
بلوچی زبان میں ، دنیا کی ہر زبان کی طرح، روزاول سے مختلف لہجوں کو سارے بلوچوں کے لیے قابل فہم بنانے کی آرزو موجود رہی ہے۔ 1950 کی دہائی میں اس خواہش میں اُس وقت گہرائی آئی جب اس زبان میں کچھ رسائل شائع ہونے لگے، بلوچی تحریری صورت میں سامنے آنے لگی اور یہ ریڈیومیں سنی جانے لگی۔
ظاہر ہے کہ جب بھی آپ کسی زبان کے لہجوں میں آپسی قربت کی بات کریں گے تو اُس میں املا اور رسم الخط کی پیچیدگیوں کی بات بھی کر رہے ہوں گے۔
جس وقت ون یونٹ ٹوٹا اور بلوچستان ایک صوبہ بنا تو یہ سوال بڑی شدومد کے ساتھ سامنے آیا۔ اس زمانے میں صوبائی حکومت نے اس معاملے پر ایک بڑی کانفرنس بھی منعقد کروائی تھی۔
مگر یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔ اور لوگ اپنی اپنی آسانی اور خواہشات کے مطابق لکھتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ’’ میں اچھا ہوں‘‘ والی نفسیات بھی چلتی رہی۔ہر لہجہ خود کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مارتا رہا۔دلیل دلائل سے بھی، اوروسائل و رسائل کے زور پر بھی۔ مگر ہزاروں سالوں سے موجود لہجے خواہشوں بناوٹوں سے کب فنا ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ہر لہجہ نہ صرف زندہ رہا بلکہ سست رفتاری سے سہی، بڑھوتری بھی پاتا رہا۔
اس دوران بلوچوں کے سارے لہجوں کو صوبائی دارالحکومت کی شکل میں کوئٹہ جیسا مرکز میسر ہوا جہاں ایک شہری تجارتی منڈی اور صوبے کے انتظامی ہیڈ کوارٹر کی وجہ سے مختلف علاقوں اور لہجے والے لوگوں کے اکٹھے ہونے کے مواقع ملے۔ اِن سب لوگوں کے باہمی لسانی روابط اور علمی بحث مباحثوں کے لیے ایک مرکز موجود ہوا۔ تب، اس مسئلے کی شدت کا احساس کھل کر سامنے آیا۔ دانشوروں، لکھاریوں اور مترجموں کے حلقوں میں بلوچی زبان کے لہجوں کی باہمی دوری دور کرنے کی بحثیں چلتی رہیں، انفرادی بھی اور ادارتی بھی۔نئے نئے علمی ،ادبی اور تحقیقی ادارے اور اکیڈمیاں قائم ہوتی گئیں۔ اجلاس، سیمینار، مشاعرے، محفلیں منعقد ہونے کی رفتار اور حجم میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور بلوچی زبان کی ترقی کے سامنے موجود اس بڑی رکاوٹ سے نمٹنے کے طریقے زیر بحث آتے رہے۔ ظاہر ہے حل تو ایک ہی تھا: بقائے باہم۔ ہر لہجہ کو زندہ رکھتے ہوئے اُسے دوسرے لہجے والوں کے لیے قابل فہم بناتے رہنے کی جدوجہد۔
اس دوران زبان کی ترقی کا ایک راستہ یہ سوچا گیا کہ بین الا قوامی کلاسیک ادب کے بلوچی میں بڑے پیمانے پر تراجم کیے جائیں۔ سنگت اکیڈمی آف سائنسز نے یہ پہل کاری کی اور یہ ذمہ داری خود پر ڈال دی۔ مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ ہمارے تین لہجوں میں باہمی فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ کوئی درمیانہ راستہ نکالا جائے۔ خواہش یہ تھی کہ جب ایک لہجے والا سکالرکوئی بین الاقوامی ادبی شہ پارے کو ترجمہ کرے تو ترجمہ کم از کم ایسا ہو کہ خود سنگت اکیڈمی کا دوسرے لہجے والا ممبر اُسے بہ آسانی پڑھ اور سمجھ سکے ۔
یوں کہیں جاکر جنوری 2016 میں سنگت ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سے ایک کمیٹی کا اعلان ہوا جس میں تینوں بڑے لہجوں میں سے ایک ایک سکالر لیا گیا۔ تاکہ وہ دانشوروں،لکھاریوں اور بلوچ اہل علم سے بحث مباحثے کر کے اس سلسلے میں ابتدائی سفارشات مرتب کریں۔
چار ماہ کی سود مند اور باثمر نشستوں ، ملاقاتوں اور بحثوں کے بعد اپریل2016میں ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں موصول شدہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے حتمی شکل دی گئی۔
اگلے ماہ( مئی2016) میں اس مسودے کو سنگت اکیڈمی کے کوئٹہ ڈسٹرکٹ کمیٹی اور مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ میٹنگ سے قبل ہی مسودہ ممبروں کو دیا گیا تھا اس لیے ہر ممبر بھرپور تیاری اور مشاورت کے بعد میٹنگ میں آیا تھا۔ زور دار و مدلل بحث مباحثے کے بعد وہاں سے گزر کر پھر یہ مسودہ سنگت اکیڈمی کے ’’ وٹس آپ‘‘ گروپ میں پھینک دیا گیا تاکہ جنرل باڈی اجلاس سے قبل اس پر مزید بحث ہوجائے۔ بڑی تلخ و شیریں اور مدلل و بے مدلل ہر طرح کی باتوں سے گزار کر اسے اگلے ماہ ( جون) میںSASکی جنرل باڈی میں پیش کیا گیا۔چونکہ ایک عمومی سی رائے بن چکی تھی اس لیے کچھ وضاحتوں، تبدیلیوں کے بعد بحث نے اتفاق کی صورت لینا شروع کردی اور بالآخر اتفاقِ رائے سے جنرل باڈی نے حتمی فیصلہ دے دیا۔
SAS کی جنرل باڈی کا فیصلہ یہ ہے :
ہمزہ کے استعمال کو کم سے کم کیا جائے۔
ث، ح،خ،ذ، ص،ض،ط،ظ،ع،غ،ف اور ق شامل رکھے جائیں۔
حرف پر دائرہ جہاں اشد ضرور ی ہو استعمال کیا جائے۔
ہر کتاب اور ترجمے کو رخشان، مکران اور سلیمان کے ادیبوں کی ایک کمیٹی دیکھے اور یقینی بنائے کہ مترجم یا مصنف نے چند فیصد الفاظ دوسرے لہجوں کے ڈال رکھے ہیں۔
ترجمہ یا تصنیف کے آخر میں متعلقہ لہجے کے نا ما نوس الفاظ کے سامنے دوسرے لہجے کے الفاظ دیے
جائیں۔
سنگت کی جنرل باڈی نے براہوئ زبان میں لہجوں کے معاملات میں درپیش دشواری پہ بھی بحث کی۔ اور سنگت ایڈیٹوریل بورڈ کی طرف سے ایک ایسی کمیٹی بنانے اور اسے بحث و مباحثے کے ایسے ہی ایک پراسیس سے گزارنے کی ہدایت کردی۔
جنرل باڈی نے اِس فیصلے کے ساتھ مندرجہ ذیل تحریر کی بھی منظوری دے دی :’’ منظور شدہ یہ پالیسی اب سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی آفیشل پالیسی ہوگی۔ ہماری ہر انفرادی ، ادارتی اور تنظیمی تحریر اب انہی اصولوں کے تحت ہوگی۔ ایک بھرپور عملی اور جمہوری عمل سے گزرا ہوا یہ فیصلہ اب کسی طرح کی اگر مگر اور مدافعانہ یا معذرت خواہانہ رویوں سے مبرا ہوگا۔
مگرظاہر ہے کہ یہ پالیسی صرف اور صرف سنگت اکیڈمی اور اُس کی مطبوعات کے لیے لازمی ہوگی۔ اکیڈمی سے باہر کے افراد اور ادارے اس پالیسی سے متفق اور نا متفق رہنے میں آزاد اور خودمختار ہیں۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی جنرل باڈی نے یہ درخواست بھی منظورکی کہ مندرجہ بالا پالیسی میں گاہے بہ گاہے دوسری تنظیموں اور اکیڈمیوں کی طرف سے بحث مباحثے کے نتیجے میں کوئی ضروری تبدیلی پر سنگت ایڈیٹوریل بورڈ غور کرسکتا ہے۔
بلاشبہ سنگت اکیڈمی بلوچی زبان اور بلوچستان کے لیے سوچنے، بولنے اور لکھنے والی تنظیم ہے مگر اس کے باوجود یہ بلوچی زبان کی سٹینڈرڈائزیشن اور رسم الخط کے بارے میں کسی قسم کا فیصلہ یا فتویٰ جاری کرنے کی مجاز نہیں ہے ۔ بلوچی کا رسم الخط خواہ رومن ہو یا مروجہ والا ہو ، لہجہ فلاں اختیار کیا جائے یا فلاں، یہ ایک تنظیم کے کرنے کے فیصلے نہیں ہیں۔ یہ پوری بلوچ قوم کے معاملات ہیں ۔ اور پوری قوم کے صلاح مشورے کے بعد پوری قوم کا اتفاق لازمی ہے۔ واضح رہے کہ بلوچی زبان جنوب مشرقی ایران، جنوب مغربی پاکستان، جنوبی افغانستان، اومان، یو اے ای، ترکمانستان، انڈیا، اور ایسٹ افریقہ میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نقل مکانیوں کی وجہ سے شمالی امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں بھی اس زبان کے بولنے والے موجود ہیں۔ اتنی بڑی قوم سے صلاح مشورہ کرنا، اتفاقِ رائے حاصل کرنا ایک اکیلی تنظیم کی قوت تو کیا، تصور سے بھی بہت بڑا ٹاسک ہے۔
یہ اتفاق کتنا عرصہ لے گا، اُس کو کون منظم کرے گا، یہ خود بخود ہوگا یا مارکیٹ فورسز اسے دستیاب کریں گی، ہمیں اس کی سنجیدگی کا احساس ہے۔ لیکن سنگت اکیڈمی اس قدر چھوٹی تنظیم ہے کہ از خوداس طرف پہل کاری بھی نہیں کرسکے گی۔ مگر جب بھی اس طرح کاکوئی initiativeکسی طرف سے آتا ہے تو سنگت اکیڈمی یقیناًاُس پراسیس کا حصہ ہوگی۔
مگر سرِ دست چونکہ ہمارا بنیادی ہدف بین الاقوامی کلاسیکی ادب کا ترجمہ ہے۔ اس لیے ہم اِسی ہدف کی تکمیل پر ٹکے رہیں گے اور زبان کی سٹینڈرڈائزیشن یا رسم الخط جیسے بڑے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے۔ البتہ جب بھی، اور جو بھی ، ادارے اورتنظیمیں زبان کی سٹینڈرڈائزیشن اور رسم الخط پر کام کریں گی سنگت اکیڈمی ان سے تعاون کرے گی۔
اور پھر ، جب بھی کوئی متفقہ یا اکثریتی فیصلہ بلوچ قوم کرے گی، سنگت اکیڈمی خود کو اسی فیصلے میں ڈھال د ے گی۔
۔ تعلیمی کمیٹی کی رپورٹ عابد میر نے پیش کی۔ اس نے بتایا کہ مئی میں مختلف افراد کے ساتھ مل کر سنگت نے نئی تشکیل پانے والی تعلیمی پالیسی میں جو تبدیلیاں یا ترامیم لانی تھیں، وہ کام گذشتہ ماہ ہی تین اجلاسوں کے دوران مکمل کر لیا گیا۔ جس کے بعد وہ کمیٹی از خود تحلیل ہوگئی۔ اس کے بعد مرکزی کابینہ نے اپنے ایک اجلاس میں سنگت کے اراکین پر مشتمل ایک پانچ رکنی نئی مستقل تعلیمی کمیٹی تشکیل دی ہے جومختلف ماہرین کے ساتھ مل کر ایک مربوط نئی عوامی تعلیمی پالیسی تشکیل دے گی، جسے بعدازاں سنگت کے تمام اداروں میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس نے بتایا کہ اس سلسلے میں اولین ابتدائی ڈرافٹ تشکیل دیا جاچکا ہے، جسے بہت جلد بہتر کر کے پہلے مرکزی کابینہ اور پھر جنرل باڈی میں پیش کیا جائے گا۔
۔ ہم خیال تنظیموں سے روابط سے متعلق بتایا گہ اب تک پانچ تنظیموں سے دوستی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ جن میں آماچ ادبی دیوان مستونگ اور راہشون ادبی دیوان کے ساتھ تحریری معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔ جب کہ گواد ر سے جیوز لبزانکی گل، نوشکی سے راسکوہ ادبی دیوان، ژوب سے پشتو ادبی لیکوال کے ساتھ بات چیت ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھ بھی معاہدہ جلد طے پا جائے گا۔ نیز آئندہ چند ماہ میں اس سلسلے کو مزید وسیع کیا جائے گا۔
۔ سنگت نصاب جو اب تک 22کتابوں پر مشتمل ہے، جسے مرکزی کابینہ نے تمام اراکین اور بالخصوص نئے ساتھیوں کے لیے تجویز کیا ہے، فی الوقت حتمی ہے۔ اس میں بعدازاں اضافے کیے جا سکتے ہیں۔ طے یہ پایا کہ اس نصاب پر عمل درآمد کا طریقہ کار تعلیمی کمیٹی طے کرکے کابینہ اور پوہ و زانت میں بتائے گی۔
۔ معروف ادیب ڈاکٹر اسلم فرخی کی رحلت، سنگت کوئٹہ کے ڈپٹی سیکریٹری ڈاکٹر عطااللہ بزنجوکے چچا اوربلوچی کے استادپروفیسر سنگت رفیق کی والدہ کی وفات پر تعزیتی قرار دادیں پاس کی گئیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے