کس کے الفاظ رْعونت کے فلک سے اْترے
جیسے تقدیر گزیدوں پہ نوِشتے اْترے
کس نے آنکھوں میں پروئی ہیں ہرائی درزیں
میرے آنگن میں نگاہوں سے پِھرا کرتا ہے
چھپ کے افلاک میں دنیا کو تکا کرتا ہے
فیصلے بھیجتا رہتا ہے زمانے کے لیے
اور ہتھیار نکلتے ہیں منانے کے لیے
میری تہذیب کا ہر نقش بدل دیتا ہے
اپنے نقشے کی لکیروں سے ملانے کے لیے
گھر کو مانگے کی ضیاؤں سے سجانے والو
عارضی دید کا احسان اٹھانے والو
اْس کے سورج سے جو آنکھوں کو بچا کر دیکھو
روشنی خون کی تصویر نظر آئے گی
تم نے چڑھتے ہوئے سورج سے کِیا عہدِوفا
اْس نے دم توڑتے ملبے سے لیا عہدِوفا
پھر بھی مجروح اناؤں پہ گرے ملبے سے
دھول اٹھتی ہے تو انکار رقم ہوتا ہے
کِس کا سر ہے کہ جو اقرار میں خم ہوتا ہے
چشمِ نالاں سے اْمڈتے ہوئے باغی لفظو
کہہ بھی ڈالو میں ظالم کا طرف دار نہیں
چاک دامن پہ نئے حکم کا دھبّہ نہ لگا
ہم سے اس حکم کی تعمیل نہیں ہوتی ہے
آدھے منظر کو خموشی سے بھگتنے والو
کوئی تصویر ادھوری جو رہی ہو اْس کی
دیکھتے جانے سے تکمیل نہیں ہوتی ہے
حرفِ بے باک کو اِمکان میں رکھنے والو
میری آواز کو انکار سرا میں رکھنا
زندگی جبر کی زنبیل نہیں ہوتی ہے