بس چلنے لگی تھی مگر پھر دھیرے دھیرے رُک گئی۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا ایک مسافر دُور سے لمبے ڈگ بھرتا بس کی طرف آرہا تھا۔ شاید ڈرائیور نے اُسے دیکھا، تو اُس کے لئے بس روک دی ہو۔ اوپر آسمان پرکالی گھٹائیں چھا گئی تھیں اور بس کے روانہ ہونے سے کچھ لمحے پہلے بوندیں بھی پڑنا شروع ہوگئی تھیں۔ مجھے خوف نے آ گھیرا۔ اگر یہ بارش اس طرح برستی رہی تو اپنی منزل پر پہنچنا ہمارے لئے ناممکن ہوگا۔ کیونکہ میں وادی کے گاؤں اور اس کے راستوں سے اچھی طرح واقف تھا ۔ کتنے ندی نالوں سے ہوتا ہوا ایک کچّا راستہ سانپ کی طرح بل کھاتا ہُوا وادی تک جاتا تھا۔ برسات کے موسم میں یہ راستہ کبھی کبھی ہفتوں تک بند رہتا تھا۔ لیکن پھر مجھے خیال آیاکہ خُدا وسیلہ ساز ہے ۔ یہ بارش جو خاران میں زور زور سے برس رہی ہے ، شاید وہاں وادی میں ہوہی نہ رہی ہو ، کون کہہ سکتا ہے؟
جنوری کے آخری دن تھے۔ سردی زوروں پر تھی ۔ مسافروں نے گرم پوشاکیں پہنی ہوئی تھیں۔ بس کی حالت بھی ایسی تھی کہ اس کی ایک بھی کھڑکی یا دروازہ اس حالت میں نہیں تھی جہاں سے سرد ہوا اندرنہ آتی ہو۔
وہ شخص جس کے لئے بس رکا تھا اب بس میں داخل ہوکر اپنے جسم کو کمبل میں اچھی طرح لپیٹتا مختلف سیٹوں کے سرہانوں پر ہاتھ رکھتا ہوا آکر میرے بائیں طرف بیٹھ گیا۔ بس کی یہی ایک سیٹ خالی تھی جس پر میں اکیلے بیٹھا تھا۔ اُس کے وہاں بیٹھنے سے مجھے خوشی ہوئی کیونکہ سفر میں کوئی بات چیت کرنے والا مل گیا تھا۔
وہ ایک جوان آدمی تھا اور ڈیل ڈول سے صحت مند اور طاقتور دکھائی دے رہا تھا۔ اُس کے تمام بال داڑھی سمیت کالے تھے۔ البتہ اُس کی داڑھی کچھ لمبی تھیں شاید کافی مُدت سے اسکو بنانے کا اُسے موقع نہ ملا ہو۔ اُس کے کمبل اور کلائی میں بندھی گھڑی سے لگ رہا تھا کہ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اپنی خُو بُو سے وہ خاموش اور منکسرالمزاج دکھائی دیتا تھاجیسے بیٹھتے وقت اُس نے مجھ سے پوچھا تھا آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہورہی ہے۔ ؟ اُس کا یہ کہنا مجھے اس لئے کھٹکا کہ کہیں میں خود اُس شریف آدمی کے لئے باعثِ تکلیف تو نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔!
جب بس روانہ ہُوئی تو اُس نے اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سُلگادیا۔ اپنی بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سر جھکا کر نیچے دیکھنے لگا۔ شاید بارش کا نظارہ اُسے پسند نہیں تھا۔ دوسروں سے بات کرنا بھی۔ اس لئے میں نے اُس سے چھیڑ چھاڑ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
جب بس تین چار گھنٹے سفر کے بعد مین روڈ کو چھوڑ کر وادی کے کچّے راستے پر اُتر گئی تو ایک ایک کرکے بس کے بہت سے مسافر راستے میں آنے والے دیہاتوں میں اُترتے گئے ۔ اب بس میں قصبے کے اکّا دکّا مسافر رہ گئے تھے ۔ اُس کو بھی شاید وہاں تک جانا تھا جس کا اُس نے ابھی تک ا ظہارنہیں کیا تھا ۔ ہوسکتا ہے وہ آگے کسی گاؤں میں اُتر جائے کیونکہ وادی ابھی کافی فاصلے پر تھی، بہت سے ایسے مسافر تھے جنہیں پہلے اُترنا تھا شاید ان میں وہ بھی ہو۔ میں دیکھ رہا تھا وہ کہاں اُترتا ہے؟
میرے لئے حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اُس کے پاس کوئی سامان نہ تھا سوائے ایک کمبل کے ۔ کوئی بیگ نہ بستر نہ کوئی گٹھڑی وغیرہ۔ وہ خالی ہاتھ تھا۔ ڈیل ڈول اور اپنی حرکتوں سے اس علاقے کا نہیں لگ رہا تھا، کیونکہ مُحکمہ تعلیم میں اپنی ملازمت کے ان چھہ مہینوں میں وادی کے تمام تر لوگوں سے واقف تھا ۔ وہ سب غریب اور نچلے طبقے کے لوگ تھے۔ یہ شخص جو میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا اُن سے الگ تھا ، لیکن وہ وادی میں کیوں جارہا تھا؟
پھر مجھے خیال آیا کہ شاید وہ وہاں نوکری کے سلسلے میں جا رہا ہو ، لیکن وادی میں سرکاری نوکری بس ایک ہی تھی ، وہ تھے مڈل سکول کے دو ٹیچر جن میں ایک وادی کا مقامی باشندہ تھاجو پرائمری سیکشن میں پڑھاتاتھا اور دوسرا سرکاری ملازم خودمیں تھا اسی سکول کا ہیڈ ماسٹر ۔ قلات سے میری پوسٹنگ چھے مہینہ پہلے اُس وقت یہاں ہوئی تھی جب قصبے کے پرائمری سکول کو اپ گریڈ کرکے مڈل سکول بنایا گیا تھا۔ تین چارمزید پوسٹیں ابھی تک خالی تھیں جن کے لئے کوئی بھی وادی میں آنے کے لئے تیار نہ تھا۔ خود میرے لئے بھی وادی ایک قید خانہ تھی لیکن بحالتِ مجبوری میں اپنے شب و روز گزار رہاتھا۔ اس لئے میں سمجھ نہیں سکا یہ آدمی وادی میں کیوں جارہا ہے؟
بوندیں اب بھی برس رہی تھیں لیکن اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ ہلکی تھیں۔ ہلکی بارش سے پہاڑوں کاپانی دیر سے آتا تھا اس لئے راستہ بند ہونے کا خطرہ کم تھا۔
ایک دو مسافروں کے اترنے کے بعد اب بس کی آخری منزل قصبہ تھا جہاں کے صرف تین مسافر رہ گئے تھے میں، وہ شخص ، اور ایک دکاندار ، جو میری جان پہچان والا تھا۔ وہ گاؤں کے اکلوتے دکان کا مالک تھا !۔
سورج غُروب ہو رہا تھالیکن بادلوں کے گھیرے میں تھا ۔ پہاڑیاں ختم ہورہی تھیں۔ اچانک جب ہماری بس ایک اُترائی میں اُتری تو ایک پھیلا ہوا میدان چھوٹی پہاڑیوں اور خالی زمین سمیت ہمارے سامنے تھا جو بارش کے غُبار میں تاریک دکھائی دے رہا تھا ہم جان نہیں سکتے تھے کہ ہم کہاں آگئے ہیں؟
بس دندنا تی ہوا میدان کوپار کرکے پہاڑیوں اور ریت پر مشتمل وادی کے قصبے میں پہنچ گئی۔ سکول کے سامنے اپنے اڈّے پر رُک گئی۔دُکاندار نے ہم سے ہاتھ ملایا اور اپنی راہ لی۔سکول کا چپراسی میرا سامان سمیٹنے لگا ۔ وہ شخص جس نے چُپ شاہ کاروزہ رکھا ہوا تھا میرے ساتھ ہی اُتر گیا اور میں حیرت میں پڑگیا کہ وہ کہاں جائے گا۔ کس کا مہمان ہے اور یہاں کیوں آیا ہے؟
جب میں سکول کی چار دیواری میں داخل ہُوا تو وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آیا۔ سکول کے تین کمرے تھے۔ دوکمروں میں کلاس لگتی تھی ۔ تیسرا میرے تصرّف میں تھا۔ ٹیچروں کی رہائش کے لئے الگ کوئی انتظام نہیں تھا۔ میں اسی کمرے میں گزارا کررہاتھا جو در اصل سکول کا سٹور تھا ۔ اب جو وہ نامعلوم آدمی میرا مہمان تھا تو اُسے بھی اسی کمرے میں جگہ دینی تھی۔ سکول کے چپراسی عرض محمد نے میرے سامان اور راشن کمرے کے ایک کونے میں رکھے۔ آتشدان میں آگ سُلگائی۔لمحہ بہ لمحہ کُہر اور سردی کا زور بڑھ رہا تھا۔آگ کمرے کے ماحول کوخوشگوار بنائے ہوئے تھی۔عرض محمد نے لالٹین جلاکے انگیٹھی کے اوپر رکھ دی۔اجنبی، میرا مہمان خاموشی سے آگ کے پاس بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔اُس کی نظریں مسلسل آگ کے شعلوں پہ لگی ہوئی تھیں۔عرض محمد کبھی اُسے دیکھتا اور کبھی مجھے۔ شاید وہ مجھ سے جاننا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے ، اور کہاں سے آرہا ہے۔ لیکن پھر وہ کام کاج میں مصروف ہوگیا۔ کوئی موقع نہیں تھا کہ میں مہمان کے بارے میں اُسے بتاتا تھا۔
میں نے عرض محمد سے کہا کہ وہ مہمان کے لئے مُرغی کا انتظام کرے اور چاول بھی پکائے تاکہ ہم اُسے ایک اچھا کھانا کھلاسکیں۔
جب میں باہر کے کاموں سے نپٹ کر آیا تو آتشدان کے سامنے بیٹھ گیا جہاں عرض محمد دیگچی چڑھائے ہوئے تھا اور ہم دونوں(مہمان) اُسے دیکھ رہے تھے۔ دیگچی کے ایک کونے میں عرض محمدکیتلی بھی رکھے ہوئے تھا ۔ وادی کے علاقوں پر اب رات کا خیمہ بادلوں کے ساتھ پوری طرح تنا ہوا تھا اور موسلا دھار بارش اب بھی جاری تھی۔
چائے پینے کے بعد عرض محمد نے دیگچی اُتاری اور روٹی پکانے کے لئے گاؤں چلا گیا ۔ سکول کی عمارت گاؤں سے ذرا فاصلے پر تھی۔ جہاں عرض محمد کا گھر تھا۔ وہ روٹیاں گھر میں پکواتا تھا ۔جب عرض محمد چلا گیا تو لپکتی آگ کی روشنی میں اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے پوچھا:’’تم کون ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟‘‘
وہ پہلی بار مجھ سے نظریں ملانے کے بعد مسکراکر کہنے لگا ’’آپ یہ کیوں پوچھتے ہیں، چھوڑو ان باتوں کو، بس میں تمھارا مہمان ہوں‘‘
’’لیکن یہ سب کچھ عجیب سا لگتا ہے‘‘میں نے کہا’’میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ واضح ہو ۔۔۔۔۔۔ راستے میں بھی تم چُپ رہے اور میں نے بھی پوچھ گچھ کرنا مناسب نہیں سمجھا ۔ تم ایک مسافر تھے اور ہم دونوں کو اپنی اپنی راہ لگ جانا تھا ۔ اس لئے سوال جواب کا سوال پیدا نہیں ہونا تھا جب مجھے معلوم ہوا تمھیں اپنی منزل کی خبر نہیں ہے اور تم میرے ساتھ ہی چلے آئے تو صاف بات ہے کہ میرے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات تو اُٹھنے ہی ہیں؟۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے کم ہوتی آگ کی تپش کو بڑھانے کے لئے کچھ کوئلے آتشدان میں رکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی وہ خاموشی سے سُنتا رہا ۔’’ طور طریقوں سے پتہ چلتا ہے کہ تم اس علاقے سے نہیں ہے ،میرے سوالوں کے تسلّی بخش جواب تمھارے پاس ہیں؟۔۔۔۔۔۔میں یہ سب کچھ اس لئے جاننا چاہتا ہوں تاکہ میں سکون کی نیند سو سکوں۔اگر میں جان نہیں پایا تم کون ہو، کہاں جارہے ہوتو میں ٹھیک طرح سو نہیں پاؤں گا۔
’’ان سب چیزوں کو جاننے کی ضرورت بھی کیاہے؟‘‘اُس نے ایک اور سگریٹ جلایا اور کہنے لگا۔’’لیکن میرے لئے یہ اطمینان بخش بات ہے کہ میں تمھارے ہاں ٹھہراہوا ہوں۔کیونکہ آپ ایک ٹیچر ہیں‘ اورمیں ٹیچروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک ٹیچر کا مہمان ہونا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز ہے !‘‘
’’میں تمھیں جاننا چاہتا ہوں‘‘ میں نے اپنا پہلا سوال دُہرایا۔
’’ کیا کروگے جان کر ۔۔۔۔۔۔ آدمی جتنا جانتا ہے، اتنا ہی اپنے آپ کو خراب کرتا ہے۔ پریشان کرتا ہے۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں اپنے بارے میں بات کروں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ خود سمجھ لیں کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔ اب میں تمھارا مہمان ہوں تو آنے والے دنوں میں تم کوسب پتہ چل جائے گا۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اُس نے سگریٹ ختم کرنے کے بعد آتشدان میں پھینک دیا ۔ وہ غور سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے وہ جواب کا منتظر ہو۔اور مجھے اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نظر آئی جس میں نہ صرف شرافت اور سادگی تھی بلکہ اس میں فکر اور تعقل بھی بدرجہء اتم موجود تھا۔ اُس کی شخصیت نے مجھے بُہت مُتاثر کیا ۔ لیکن مجھے اُس کا بغیر کسی سبب کے گھر سے نکلنا اور کسی انجان آدمی کا مہمان بننا بہت عجیب لگ رہا تھا۔میں اس راز کی تہہ تک پہنچنے کا خواہاں تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک شخص اپنے گھرسے نکلے اور اُسے اس کا پتہ بھی نہ ہو وہ کہاں جا رہاہے۔ اگر یہ سب ایک اسرار نہیں تھا تو کیا تھا پھر وہ بھی ایک ایسے شخص سے یہ سب کچھ سرزد ہو نا جو میرے نزدیک عقل اور شعور کا ایک پیکر نظر آرہا تھا، یہ سب کچھ میری فکر اور سوچ سے بالاتر تھا۔ میں اس رازسے ہر حال میں پردہ اُٹھانا چاہتا تھا۔ مہمان بھی اتنا اچھا تھا کہ بار بار اس کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پھر وہ کیا سوچے گا کہ میں اُس سے اتنا کیوں پوچھ گچھ کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں نے سوچا ، وہ میرے ہاں ہی ٹھہرا ہُوا ہے کل صُبح یا شام کسی وقت اس راز سے پردہ اُٹھ ہی جائے گا۔ ؟
عرض محمد نے کھانا لگا دیا تو میں نے مہمان کے ساتھ کھانا کھایا۔ اُس نے میرا شُکریہ ادا کیا اور میں نے اُس سے کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ اپنے مہمانوں کی خدمت کرنا ہماری روایت میں شامل ہے۔
میں نے اُس کے لئے بستر لگا یا ۔ وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا ۔ جب کہ میں کمرے کے دوسرے کونے پر اپنے بستر پر درازہو گیا۔ بارش برس رہی تھی۔دور گاؤں میں کُتوں کے بھونکنے کی آوازآرہی تھی اور اندھیرے کمرے میں مہمان کے بارے میں سوچتے ہوئے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
صُبح مہمان اُٹھا تو میں نے اُس کے ساتھ ناشتہ کیا اور سکول جانے کی تیاری کرنے لگا۔ بارشُ رک چُکی تھی۔ بادل دُور دُور بکھر گئے تھے کہیں کہیں نیلا آسماں نظرآ رہا تھا ۔ کبھی کبھی انہیں ہلکے ہوتے بادلوں میں سورج جھانکتا تھا اور دُورگاؤں کے اُداس گھر، فصیلیں اور جھونپڑیاں یوں نظروں میں واضح ہوجاتیں جیسے کوئی طاقتور کیمرے میں ان کاکلوزاپ شاٹ لے! سکول کے بچے بہتی ناک اور چمکتے چہروں کے ساتھ سکول میں داخل ہو رہے تھے۔ میں نے مہمان سے اجازت لی اور دوپہر تک بچوں کے ساتھ مشغول رہا ۔ دوپہر کا کھانا ہم نے ایک ساتھ کھایا۔ بادل ایک بار پھر چھا گئے تھے لیکن اس کے ساتھ گوریچ (موسمِ سرما میں چلنے والی سرد ہوا) کا ایک جھونکا آیا اور سارے بادلوں کو روئی کی طرح بکھیر کر پہاڑوں کے اُس طرف لے گیا۔ اور چاروں طرف صرف اور صرف گوریچ کا راج ہوگیا۔ جس کا چلنا ایسے تھاجیسے کوئی اُسترے سے بدن کے گوشت چھیلے۔ ہم دونوں شام تک آتشدان کے سامنے بیٹھے رہے۔ پھر ہم باہر نکلے۔ سکول کے سامنے ٹیلوں کا ایک لا مختتم سلسلہ تھا ۔ جو حدّ نظر تک پھیلا ہوا تھا۔ انہی ٹیلوں پر ریت آکر جم جاتی جس سے وہ ریتوں کے نیچے دب جاتے ۔ سورج کی روشنی میں رات کی بارش سے بھیگی ریت اب خُشک ہو رہی تھی جن کے نیچے دبے ہوئے ٹیلے چمک رہے تھے۔ مہمان اپنی شال اوڑھے ، مسلسل سگریٹ پی رہاتھا۔ جب ہم سکول کے سامنے ایک بڑے ٹیلے پر پہنچے تو اُس نے اپنے سگریٹ کو پاؤں کے نیچے مَسلتے ہوئے میری جانب دیکھا اور شائستگی سے کہنے لگا:’’آپ کل سے مسلسل پوچھ رہے ہیں کہ میں کون ہو ، کہاں جا رہا ہوں۔؟آئیے میں آپ پر سب واضح کرتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ یہ مناسب بھی نہیں ہے کہ میں آپ کے ہاں ٹھہرا ہوں ۔آپ کا کھانا کھا رہا ہوں ، اور آپ کو پتہ بھی نہ ہوکہ میں کون ہوں؟۔۔۔۔۔۔دراصل کچھ عرصے سے مجھے احساس ستا رہا تھا کہ میں کسی ایسی جگہ جاؤں جہاں مجھے زندگی کا کوئی خوف کوئی دہشت دامن گیر نہ ہو ۔
بچپن سے ایک دہشت میرے ساتھ لگی ہوئی ہے ۔ آپ اسے خوف نہیں کہہ سکتے، یہ خوف سے کچھ زیادہ ہی طاقتور شے ہے۔ خوف میں ،آپ ایک بیرونی علت سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ بعض اوقات تو آپ بیرونی علتوں کو غلط معنی دیتے ہیں اور خوف تمھارے دل میں جا گز یں ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ الگ ہے۔ یہاں آپ زندگی سے ایساخوف محسوس کرتے ہیں۔ جیسے یہ آپ کو کھا رہی ہو۔ تمھیں نگل رہی ہو۔ ہڈّیوں اور گوشت میں چھید ڈال رہی ہو۔ یہ ایک نہایت ہی عجیب احساس ہے۔ جب ایک بار آدمی اس کے شکنجے میں پھنس جائے تو وہ ، پہلے جیسا نہیں رہ سکتا۔ اُس کے لئے دوسرے تمام احساسات ہیچ ہوجاتے ہیں۔ سوائے اسی ایک دہشت کے احساس کے۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں مجھ سے کیاگُناہ سرزد ہوا ہے کہ زندگی کی دہشت نے مجھے شکنجے میں کس لیا ہے ۔ شاید میرا خمیر کچھ اس طرح کا ہے کہ میں زندگی کو ایک الگ نقطہء نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ حساس ضرور ہوتے ہیں۔ مگر اپنی انا کو خراب نہیں کرتے کہ وہ زندگی کو ایک دہشت سمجھیں۔ وہ خود کو حساس ظاہر کرتے ہیں لیکن اصلََا ہوتے اناپرست ہیں جبکہ زندگی کی دہشت سے دوچار ہونے کے بعد آپ الگ راہ لگ جاتے ہیں جس میں کوئی اناپرستی نہیں ہوتی۔ زندگی تم کوایک خوف میں مبتلا کرتی ہے، اور تم مجبورََا اس کی ہر چیز کو الگ ڈھنگ سے دیکھنے لگتے ہو۔۔۔اس کا مطلب ایک انا پرست کا حساس ہونا نہیں ہے۔ بلکہ اس میں زندگی کے معنی پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔۔ میرے مطابق اگر کوئی زندگی کی دہشت سے واقف ہے تو وہ خود زندگی سے واقف ہے۔ اگر وہ اس کے بارے میں نہیں جانتا تو وہ کچھ بھی نہیں جانتا۔ لیکن یہ سمجھ لو کہ حساس ہونا ، خوف میں مُبتلا ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم زندگی کو اس طرح قبول نہیں کرتے ہو جس طرح دوسرے لوگ قبول کرتے ہیں۔ بلکہ تم اس سے بُلند ہونے کی کوشش کرتے ہو۔ اور اس کی دہشت کا سامنا کرنے کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ دراصل زندگی کیاہے ۔۔۔۔۔۔شاید تمھیں معلوم نہیں ہم کس قدر غلط چیزوں میں زندگی برباد کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ آپ ایک ایک چیز کا نام لیں میں آپ کو بتا دوں گا۔ ہم وطن سے ، لوگوں سے، قوم سے محبت کو، اپنے قبیلے کے جوش اور جذبے کو ، اور دوسرے لوگوں سے میل ملاقات کوکس قدر غلط معنی پہناتے ہیں۔ جبکہ ہم اس معاملے میں بالکل کورے اورناسمجھ ہوتے ہیں۔ صرف زندگی کی دہشت کو سمجھنے کے بعد ہی ہمیں احساس ہوسکتا ہے کہ وطن کیا ہے؟ قوم ، قبیلہ کیا ہے؟ علم کیا اور عمل کیا ہے؟ فی الحال مختلف لوگوں کی دہشت ہمیں مجبور کررہی ہے کہ فلاں کام کروگے تو تمھیں فلاں آسودگی ملے گی۔ سیاست دان ہمارے خارج کا اور مُلّاہمارے باطن کا استحصال اسی طرح سے کرتا ہے۔ سیاستدان اور مُلّادونوں ہمیں یہ موقع ہی نہیں دینا چاہتے ہیں کہ ہم زندگی کی دہشت کا سامنا کریں اور اپنی خودی کا سامنا کرکے اپنا مقام بنا سکیں۔ اپنا مالک آپ بنیں ۔۔۔۔۔۔ میرے بھائی ، انسان کہنے سے کوئی اپنی زندگی کا مالک نہیں بن سکتا جب تک وہ زندگی کی دہشت سے دوچار نہ ہو ا ہو اور اس کو سمجھ نہ سکا ہو۔۔۔۔۔۔ جب تم اس کو جان گئے تو پھر ایک قوم ایک آدمی اور ایک سوسائٹی بن جاتے ہو ، لیکن وہ لوگ جو زندگی کی اس دہشت سے ناواقف ہیں جس میں کسی قسم کی کوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔تو وہ بس زندہ ہیں اور زندگی اُن کے لئے ایک وسیع میدان کی طرح پھیلی ہوئی ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتی۔ اُن کی زندگی ہمیشہ اس طرح گُذرتی ہے جو ہر قسم کی آسودگی سے خالی ہوتی ہے اور اُن کی اسی مفلسی اور بد حالی پر لوگ اپنی سیاست اور ملائیت کو چمکاتے ہیں۔ اور وہ لوگ کبھی برداشت نہیں کرسکتے کہ وہ زندگی کی دہشت کو جان لیں اور اپنی زندگی تبدیل کریں۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ تم ایک ٹیچر ہو، تم اُن کو سکھا دو کہ زندگی کی دہشت کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب اپنے آپ کو جاننا ہے۔ باقی سارے نظریے ، فلسفے سب فکری دھاگے ہیں جنہیں تم خود باندھتے ہو اور خود ہی توڑدیتے ہو، صرف زندگی کی دہشت کا احساس لازمی ہے ۔ یہ تمام فلسفوں سے بُلندتر ہے۔ وہاں ایک فرد کھڑا ہوکر اپنے خُدا سے سوال و جواب کرسکتا ہے جس کے بعد سارے فکری سسٹم بے کار ہوجاتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ بس یہی ایک دہشت زدہ انسان جان سکتا ہے کہ اُس کے ،سوسائٹی، قوم قبیلے کا مطلب کیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ تم اسی دہشت کے مالک و مختار ہو اور اس کو جان لو۔۔۔۔۔۔ اور میں اس دور افتادہ علاقے میں اس لئے آیا ہوں کہ میں سمجھ سکوں کہ انسان زندگی کی اس دہشت سے بُلند کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد زندگی اس کے لئے دوستی اور محبت کے خوبصورت دروازے وا کرتی ہے۔اوروہ کینہ و نفرت اور جنگ و جدل سے دامن چھڑانے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ یہ تمام جذبے دہشت کے احساس کے دشمن ہیں یہ تمھیں پستی میں دھکیل دیتے ہیں۔ جبکہ دہشت کا احساس تمھیں بُلند درجے پر فائز کرتا ہے۔ ابھی تک تم شخصیات کی تعریف و ثناء سے تھکتے نہیں ہو۔ ابھی تک تم زندگی کی ٹھوس حقیقت کے نشے میں اس قدر بد مست ہو کہ تمھارے لئے زندگی ایک گُریز، ایک قاچاق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اس کے لئے تم سب کے سامنے جُھکتے ہو۔ سب کا آداب بجا لاتے ہو۔ ابھی تک تمھاری سوچ تم سے جھوٹ بولتی ہے کہ صرف خُدا نے تمھیں زمین پر پیدا کیا ہے۔۔۔۔۔۔وہیں سے تمھارے سارے فیصلے ہوتے ہیں۔ تم چاہے کتنی بھی شدت سے اپنا مقدمہ بیان کرو۔ وہ کمزور ہوگا۔ کیونکہ تم زندگی کی دہشت سے انجان ہو۔۔۔۔۔۔ ابھی تک تم حیوانوں کی طرح زندہ ہو۔تم نے سر اُٹھانا نہیں سیکھا ہے۔ تم اُن روایتوں کا پاسدار ہو جو نیست و نابود ہورہی ہیں۔مٹ رہی ہیں۔
اب اگر تمھیں زندہ رہنا ہے تو پھر زندگی کی دہشت سے دوچار بھی ہونا ہوگا کیونکہ یہ وہ احساس ہے جس میں ساری قوم ، قبیلہ ، ملک اور وطن ایک ہیں۔ جس کا بھی سامنا اس دہشت سے ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ ان ساری چیزوں کا مطلب کیا ہے۔ زندگی یہ نہیں جو تمھاری نظروں کے سامنے ہے۔ زندگی کی ایک اور تصویر بھی ہے جس کا عکس میری اور آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ اس کا احساس تم کو اُس وقت ہوجائے گا جب تم زندگی کی دہشت کا سامنا کرو گے ۔۔۔ ۔۔۔ اور خُدا کرے کہ تمھارا سامنا اس دہشت سے ہوجائے۔ تاکہ تمھیں پتہ چل سکے کہ ان بوسیدہ روایتوں سے ہٹ کر بھی کوئی ایسی چیز ہے جس میں برداشت، علم ، دوستی، شعور، اور عقل کی بادشاہی ہے ۔ تم ان چیزوں سے جتنادور رہو گے اُتنی ہی یہ دہشت پروان چڑھے گی جو ان کے سامنے مضبوطی سے استادہ ہے ۔ پھر اس کے بعد تم اپنے آپ کو جان پاؤگے اور دُنیا کو سمجھ پاؤگے۔۔۔۔۔۔ ابھی تک تمھارا ماضی اس احساس سے بھاگنے ، اسے کھونے سے عبارت ہے۔ تمھارے مستبقل کی تاریخ اسی دہشت کا سامنا کرنے سے صحیح ہوسکتی ہے ورنہ تم اس طرح بے نام و نشان ہوجاؤگے جیسے دوسری قومیں ہو ئی ہیں!۔۔۔۔۔۔ ‘‘
سورج بُلند پہاڑوں کے کوہانوں کے پیچھے چھپ رہا تھا اور میں حیران ہو رہا تھا کہ میں کیا سُن رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا میں کوئی خواب دیکھ رہاہوں ؟یہ آدمی ولی، بُزرگ، یا کوئی صوفی ہے یا کوئی بھوت۔۔۔۔۔۔ اور وہ کس سے مُخاطب ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔ اُس کی باتوں میں کتنی طاقت ہے ، کتنا زور ہے کہ میں اُن کو سمجھ نہیں پارہا ہوں مگر میں اتنا جانتا ہوں یہ تمام باتیں اُس کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہیں۔
میں نے سورج کو غروب ہوتے دیکھا تو مہمان کو اشارہ کرنا چاہا کہ وہ اُٹھے تاکہ ہم گھر جائیں لیکن مجھ پر اس کا سحر اس قدر طاری تھا کہ میں خود میں یہ جرات پانہیں سکا کہ اُس کو اس طرح اُٹھنے کا کہہ سکوں۔ اس لئے میں چاہتا تھا کہ اُس کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر اُس سے کہوں کہ آپ یہاں سے مت جائیں ۔ ہمیشہ کے لئے میرا مہمان بن جائیں ۔ تاکہ میں آپ کی باتیں سُنتا رہوں ، ہمیشہ ، اسی طرح روانی سے ۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔ لیکن اُس نے مجھے موقع نہیں دیا ، پھر کہنے لگا ’’ کچھ دن پہلے میں نے ارادہ کیاتھاکہ میں وادی میں جاؤں۔ یہ ہمارے مُلک کا ایک دُور افتادہ علاقہ ہے ۔کچھ دن میں وہاں کسی کا مہمان بن جاؤں۔ وہاں میں اُن معصوم اور ناسمجھ لوگوں میں رہوں‘‘ جب اُس نے سگریٹ سُلگایا تو میں نے پوچھا:
’’دہشت ، دہشت گردی تو نہیں ہے۔ ‘‘
وہ مسکرا یاجس طرح ہم آج کل دہشت گردی کے ماحول میں ہمیشہ دہشت گردی کے بارے میں بات کرتے ہیں ، کہنے لگا:’’ دہشت کا مطلب یہ ہے کہ زندگی ایک ایسا سفر ہے کہ اس میں ہر قدم ، ہر لمحے میں ایک ہنگامیت ہے۔ایک کرب ہے ۔اگر کوئی اس کو نظراندازکرنا چاہے تو وہ نقصان میں ہے ۔ اگر تم اس کا مقابلہ کرو گے تو تمھاری زندگی تمھاری ہوجائے گی ، اس پر کسی فلسفے کا تسلّط ہوگا نہ کسی نظرئیے کی حکمرانی۔ تم ان سب سے بُلند سوچنے لگ جاؤ گے یا بُلند ہوجاؤگے۔ کیونکہ عظمت صرف دوستی اور محبت ، دوسروں کا خیال رکھنے، برداشت کرنے میں پنہاں ہے۔ ان کے
علاوہ کوئی عظیم نہیں ہوسکتا نہ ہی کسی اور چیز سے بُلندی کا رُتبہ پاسکتا ہے۔ باقی تمام چیزیں تمھیں پستی کی طرف لے جائیں گی۔ بُلندی کی جانب کوئی راستہ جاتا ہے تو وہ دہشت ہی ہے۔ کچھ اور تمھاری منزل نہیں ہوسکتی۔ یہ تمھاری کامیابی کا پہلا سبق ہے ۔۔۔۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم دہشت کو اپنی منزل سمجھ لو بلکہ اس سے بُلند تر ہوجاؤ۔۔۔۔۔۔ انگریزی میں اس کو Tragic Sense Of Life کہتے ہیں جو Terrorismسے بالکل الگ چیزہے ۔ دہشت یا Tragic Sense Of Lifeتمھیں اس لئے آن گھیرتی ہے کہ زندگی کے کوئی حتمی معنی موجود نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک کربِ مُسلسل ہے۔ جس کا علاج بس تمھاراعمل، کردار، حرکت ہے۔ زندگی کا مقصد ہی حرکت ہے۔ اس میں برداشت، محبت، خیال رکھنا سب شامل ہوتاہے ۔ان کے بغیر تمھاری سب حرکتیں دہشت گردی (Terroism) کے زُمرے میں آتی ہیں۔ اس کے لئے تمھارے ہر فرد کو یہ سمجھنا پڑے گا تاکہ وہ اُس درجے تک پہنچ سکے کہ وہاں وہ زندگی کی عظمت پاسکے۔
’’لیکن یہ بہت دشوار ہے‘‘
’’ مگر حتمی بات بھی یہی ہے‘‘ اُس نے کہا’’ نہیں تو تم اُسی درجے میں رہوگے ، جس درجے میں ابھی ہو‘تمھارا گُریز،تمھارا قاچاق ہونا، تمھارا علم سے بے بہرہ ہونا اور دوسروں کے سامنے جُھکنا!یہ سب تمھیں پستی کی طرف لے جاتے ہیں‘‘
وہ اُٹھا اور ہم سکول کی جانب روانہ ہوئے۔ رات کی خاموشی ، گاؤں کا سنّاٹا اور اُس کی باتیں، مجھے خود سے بھی خوف محسوس ہو رہا تھا۔ میں زندگی میں پہلی بار ایسی بے سر و پا اور الجھی ہوئی باتیں سُن رہا تھالیکن مہمان کی باتوں میں کس قدر اثر تھا ، یاخُدا۔۔۔ ۔۔۔ یا خُدا یہ زندگی کیسے سمجھ میں آئے؟
رات ، ہم دونوں بُہت دیر تک بیٹھے رہے، لیکن اب وہ بہت کم گُفتگو میں حصّہ لے رہا تھا۔ میں اُس سے بہت سی باتیں پوچھ رہا تھا۔ جن کے وہ ہوں ، ہاں میں جواب دے رہا تھا۔ جیسے اُس نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چُکا۔ اب اُسے کچھ بھی کہنا نہیں ۔۔۔ ۔۔۔! ، میرا تجسُس بڑھ رہا تھا۔
پھر ہم لیٹ گئے۔ میں سوچتا رہا۔ بہت سے سوالات میرے ذہن میں کلبلارہے تھے۔ میں نے سوچا کل میں اُس سے کچھ اور پوچھ تاچ کروں گاکیونکہ اُس کی باتوں کے بعد میرے ذہن میں بہت سے سوالات اُٹھے تھے جن کے جواب جاننا میرے لئے ازحد ضروری تھا۔
صبح جب میری آنکھ کُھلی،تو مہمان ندارد ۔ میں نے عرض محمد سے پوچھا اُس کو بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔ پتہ نہیں وہ کہاں چلا گیا؟ میں آج کے دن تک منتظر ہوں کہ وہ لوٹ آئے اور مجھے میرے سوالوں کا تشفی بخش جواب دے۔