بہنے لگتی ہے خنک رات کی سردی اندر
جانے کیا سوچنے میں محو ہے یہ خاموشی
چیختی رہتی ہیں چیخیں مری تنہائی میں
خواب آنکھوں میں کہیں دور پڑے روتے ہیں
اب دریچے سے کبھی چاند برستا ہی نہیں
زیست تھک ہار کے لیٹی ہوئی مر جائے گی
خاک چپ چاپ بکھر جائے گی اک دن مجھ میں
جھونپڑی جو کہ بنائی تھی زمستانوں میں
اب وہاں رہتے ہیں دو لوگ نہیں، ہاں، شاید

وہ کسی یاد میں لپٹی ہوئی سوجاتی ہے
میں کسی یاد کو پہنے ہوئے مر جاتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے