ادب نہایت سنجیدہ سرگرمی ہے۔میں خونِ جگر جلانا پڑتا ہے، اسے بھگتنا ہوتا ہے، جھیلنا ہوتا ہے۔ ادب کی طرف جانے والی راہِ پُرخار محض کھل جا سم سم کے اسم کی اسیر نہیں ، سادھوؤں جیسی گہری تپسیا اور اخلاص ہی وہ چابیاں ہیں، جن سے اس کٹھن مگر حسیں تر کائنات کے دروازے کا تالا کھلتا ہے۔ اور جب یہ کائنات بلوچستان کے ادب کی ہو، تو مزید گہری سنجیدگی اور کٹھن تپسیا کی متقاضی ہوتی ہے۔ بلوچستان ہر معاملہ میں بھاری پن مانگتا ہے، گہرے خلوص اور حد درجہ قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ ہلکے پن کا مظاہرہ کرنے والا یہاں ہلکے پن کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔
ادب اگر کمٹ منٹ ہے تو بلوچستان کمٹ منٹ کا دوسرا نام ہے۔سیاسیات سے لے کر سماجیات تک گہری کمٹ منٹ کی ایک شان دار روایت اس دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہے۔یوسف عزیز مگسی سے لے کر، گل خان نصیر تک ایک سے ایک اعلیٰ نام ہے، جو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ بلوچستان کمٹ منٹ کا امام ہے۔ اس کمٹ منٹ میں کمی صرف تب پائی جاتی ہے جب عمل کرنے والے، لکھنے والے دھرتی سے کٹ جاتے ہیں۔ جب ’مکیں ادِھر کے اُدھر کی سوچتے ہیں‘ تو گھر میں لگی آگ سے دامن بچانا ممکن نہیں رہتا۔ زبان کو ابلاغ کا ذریعہ جاننے کی بجائے، اسے تفاخر کا ذریعہ بنا لینے سے فکر اعلیٰ نہیں ہو جاتی۔ فکر کا تعلق تو معروض سے ہے، زمین سے اور اہلِ زمین سے ہے۔ ان سے جڑنا اور جڑ کر لکھنا ہی ادبی کمٹ منٹ کا بنیادی تقاضا ہے۔
بلوچستان میں بالخصوص اردو میں لکھنے والوں نے اس کمٹ منٹ کے معاملے میں جہاں جہاں ٹھوکر کھائی ہے، وہاں سے قاری بدظن ہو کر اپنی زبانوں کی طرف لوٹا ہے۔ جہاں بھلے اسے فنی طور پر کم زور فن پارے ہی پڑھنے کو کیوں نہ ملے ہوں، لیکن فکری طور پر اس کے مسائل و معاملات سے جڑت رکھنے کے باعث ان فن پاروں نے اسے زیادہ متاثر کیا ۔ شاید اسی لیے بلوچستان میں اردو کے ادیبوں کو بالخصوص اکیسویں صدی میں قارئین کی روز بہ روزبڑھتی قلت کا سامنا رہا ہے۔جب کہ دیگر زبانوں میں یہ تعداد روز افزوں ہے۔
ایسے میں اگر بلوچستان سے اردو میں ایسی کہانیاں سامنے آئیں، جو مکمل طور پر اس وطن سے جڑت رکھتی ہوں، جن میں آپ کو اس سرزمین کے وہ عمومی معاملات نظر آئیں جنھیں آپ اور ہم روزمرہ میں قابلِ غور ہی نہ جانتے ہوں، اور بالخصوص جب یہ کہانیاں سنانے والی کوئی خاتون لکھاری ہوں، تو اچنبھا ہونے میں کوئی اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔
زیب لونی کی ’جلتے خواب‘ کے عنوان سے پندرہ کہانیاں حال ہی میں کتابی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ یہ اپنے جلو میں حیرتوں کا ایک جہاں لیے ہوئے ہیں۔ اس پہ اگر آپ کو روایتی بیان کا گمان گزرے تو صبر کیجیے، ہم اس دعوے کو عملاً ثابت کریں گے۔
بلوچستان کے اردو افسانوی ادب میں زیب لونی کا نام اس سے پہلے بہ طور نمایاں افسانہ نگار نہیں سنا گیا، جب کہ اب ان کی ایک مکمل کتاب سامنے ہے، حیرتوں کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔بیک فلیپ پر ان کے مختصر تعارف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گذشتہ پندرہ ، سولہ برس سے لکھ رہی ہیں۔ نیزاس وقت گورنمنٹ گرلز کالج کوئٹہ کینٹ میں اردو پڑھا رہی ہیں۔
عموماً بلوچستان میں لکھی جانے والے افسانوی حتیٰ کی شعری مجموعے بھی اٹھاکر دیکھ لیں تو اکثر کے موضوعات آپ کو غیر متعلق معلوم ہوں گے۔ مصنف کا مقامی تعارف ہٹادیں تو آپ یہ اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ یہ کوئٹہ کے کسی ادیب کی تحریر ہے یا کراچی، لاہور کے کسی عام لکھاری کی۔ ادب کے بعض ’علامہ ‘عین ممکن ہے اسے خوبی تسلیم کریں، مگر عمومی ادبی معیارات میں یہ کوئی احسن عمل نہیں۔مثال کے طور پر عالمی ادب کا کوئی بھی شہ پارہ اٹھا لیں، عالمی فکر کا پرچارک ہونے کے باوجود یہ اپنے مقامی لوکیل سے باہر نہ ہو گا۔ روسی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن ادب کے تمام معروف شہ پارے اس کی مثالیں ہیں۔ معاصر ناموں میں فلسطین کا محمود درویش ہو،چلی کاپابلو نیروداہو،لاطینی امریکہ کا گارشیا مارکیز ہو یا برازیل کا پاؤلو کوہلیو، ان کا بنیادی حوالہ ان کا وطن اوران کی معروف تحریروں کا ٹیگ ان کا لوکیل ہی ہے ۔ لیکن بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ میں رہ کر اردو میں لکھنے والوں کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کی تحریروں میں یہاں کا لوکیل نہ آنے پائے، کہ اس سے اُن کی تحریر مقامی ہو جائے گی، آفاقیت کے دائرے سے نکل جائے گی۔اور اگر بالفرض ضروری بھی ہو کسی ایک آدھ سماجی رسم و رواج پہ طنزیہ لکھا، اور گویا حق ادا ہو گیا۔ ثبوت کے بہ طور گذشتہ پندرہ برسوں میں شائع ہونے والی کوئی 15کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں۔ دودھ اور پانی کا حساب ہو جائے گا۔
اس پس منظر میں زیب لونی کی تمام15کہانیاں اگر مقامی لوکیل کے ساتھ سامنے آئیں، تو حیرت تو بنتی ہے، اور بالخصوص ایسے لوکیل کے ساتھ جنہیں عام قاری تو ایک طرف، جید لکھاری بھی قابلِ اعتنا تو نہ جانتے ہوں تو حیرت دوگنا ہو جاتی ہے۔
یہ پندرہ کی پندرہ کہانیاں عام انسانوں کی کہانیاں ہیں۔ بلوچستان کے عام انسان۔ وہ خاک نشیں کہ جن کا لہو رزقِ خاک ہو جائے تو کہیں خاک بھی نہ اڑے۔بھلا سکول میں تماشا دکھاکر رزق کمانے والے میجیشن پہ بھی کوئی سوچتا ہے؟ وہ بچے جو اچھے بسکٹ کے ذائقے سے آشنا نہ ہوں، ان کی بھی کوئی کہانی ہوتی ہے کیا؟ گھر میں کا م کرنے والی نوکرانی کی بچی کی بھی کوئی زندگی ہوتی ہے کیا؟ بھلا گاؤں کے کھیتوں میں برہنہ ہونے والی جواں شاخوں پہ بھی کوئی برف کی کلیاں سجاتا ہے ؟۔۔۔
تو ایسی کہانیاں سناتی ہیں ہمیں یہ کہانی گر!
زیب لونی نے کمال کی ہمت کر کے اُن کی کہانیاں سنائی ہیں، جن کی کہانی کوئی نہیں سنتا، کوئی نہیں سناتا۔ گاؤں کے کھیت میں لٹنے والی جوانیوں سے لے کر، پیسے کے لالچ میں بکنے والی لڑکیاں، وڈیرے کے ظلم کا شکار ہاری سے لے کر گھروں کی غلام گردشوں میں اپنا آپ گنوا دینے والے عام انسان۔۔۔وہ سب جنھیں عام روزمرہ زندگی میں اپنے اردگرد دیکھتے رہتے ہیں، مگر آنکھ بچا جاتے ہیں۔ زیب، کہانی کے ہتھیار سے ہمارا دامن پکڑ لیتی ہیں،ذرادیر کو روک لیتی ہیں۔ کہانی آئینہ بن کر ابھر آتی ہے، ہم اپنا چہرہ دیکھ کر ایک لمحے کو ٹھٹک جاتے ہیں۔ گو کہ بالآخر دامن جھٹک کر گزر ہی جاتے ہیں، لیکن یہ ایک لمحہ کا توقف ہی تواصل کہانی ہے۔
آپ کرداروں کے نام ہی دیکھ لیجیے؛ چھبو، جمالے، مائی جناں، نذرو، بیگی، نوری، سیدو، میراں،گڈو،مہ ناز۔۔۔آپ نے یہ سب نام سنے ہوں گے، ان ناموں کے کردار اپنے اردگرد دیکھے ہوں گے، لیکن ان کی کہانی پہ کبھی غور کیا؟۔ نہیں کیا نا!۔۔۔ زیب لونی کے افسانے پڑھیے، ان سب کی کہانیاں ملیں گے آپ کو۔
ایک اور حیرت کا تذکرہ ہو جائے۔۔۔ اس خاتون نے ایک کہانی ایسے موضوع پر بھی لکھی ہے، جو ہمارے سماج میں ممنوعا ت میں سے ہے۔ اس پر بولنا بھی عموماً اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ میرا محتاط دعویٰ ہے کہ بلوچستان کے کسی فکشن نگار نے اب تک اس موضوع کو نہیں چھوا۔ یہ روحانی پیشواؤں کے گھرانوں کے اندر کی کہانی ہے۔ ’الٹراساؤنڈ‘ کے عنوان سے بہ ظاہر تو یہ کہانی عورت پر بچی کی بجائے بچہ پیدا کرنے کے دباؤ اور اس سے پیدا ہونے والی سماجی نفسیاتی پیچیدگیوں کو بیان کرتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ معزز سمجھے جانے والے ان گھرانوں کی اندرونی غلام گردشوں کا بھی پردہ چاک کیا گیا ہے۔ یہ نہایت نازک موضوع ہے، جسے کمال خوب صورتی اور مہارت سے مکمل کیا گیا ہے۔ پہلی بار کسی فکشن نگار نے ان گھرانوں کی مضبوط فصیلوں میں قلمی دراڑ ڈالی ہے۔ اتفاق سے یہ اس مجموعے کا فنی طور پر بھی سب سے مضبوط افسانہ ہے۔
’سب سے مضبوط‘ اس لیے کہ فکری طور پر اہم اور اعلیٰ ہونے کے باوجود اکثر افسانے فنی طور پر کم زور واقع ہوئے ہیں۔ لگتا ہے کہ مصنفہ نے اکثر کہانیاں ایک ہی نشست میں مکمل کی ہیں اور ان پہ نظر ثانی کا تردد نہیں کیا۔ ورنہ ذرا سی محنت سے ان کہانیوں کو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا۔ کرافٹ ہی وہ بنیادی فنی پہلو ہے، جو ان کہانیوں میں مفقود ہے۔ مصنفہ موضوع کے ساتھ اس قدر کمیٹڈ ہیں کہ کرافٹ کی طرف ان کا دھیان ہی نہیں جاتا۔ وہ کہانی کو نہایت سادہ بیانیے میں مکمل کر لیتی ہیں، یہ تردد کیے بنا کہ اس سے کہانی کا حسن کیسا گہنا رہا ہے۔اس کی ایک مثال دیکھئے: کہانی ’کب بدلو گے؟ ‘ کی مرکزی کردار نوری کو پہلے صفحے میں ’بیس سالہ‘ بتایا گیا ہے، اگلے ہی صفحے پہ اسے ’پندرہ سالہ‘ لکھا ہے۔ اسی طرح اکثر کہانیوں کے عنوانات میں بھی محنت نہیں کی گئی۔’کب بدلو گے؟‘، یا ،’ اب کیا بیچوں؟‘ پر کہانی کی بجائے کسی مضمون کے عنوان کا گمان ہوتا ہے۔
مصنفہ نے اپنے فن سے قاری کو روشناس کرانے کے لیے جن بڑے ناموں کے ’سرٹیفکیٹ‘ کتاب میں شامل کیے ہیں، کرافٹ کی کمی کا تذکرہ اکثر انھوں نے بھی ذرا محتاط انداز میں کیا ہے۔
معاصر اردو افسانے کا قابلِ احترام اہم نا، حمید شاہد نے کہا کہ مصنفہ کہانی سے لکھت کی بجائے، اخلاص کی سطح پر اس سے جڑتی ہیں۔ دوسرے معنوں میں وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ فنی سطح سے اغماز برتتے ہوئے مصنفہ اخلاص کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ پروفیسر نسیم اچکزئی نے یہ بات ذرا زیادہ کھل کر کہی ہے۔ (گو کہ انھوں نے اپنے انگریزی ادب کے پس منظر کے باوصف اپنے مضمون کی تمہید میں اردو ادب اور ادیبوں پہ تبرہ بھیجنا ضروری سمجھا ہے، یہ معاملہ مگر الگ بحث کا متقاضی ہے)۔انہوں صاف کہا کہ،’’ پہلے افسانے کو پڑھتے ہی دل میں ایک خواہش سی ابھری کہ کاش زیب سے میری ملاقات ان الفاظ، ان فقروں، ان واقعات اور کرداروں کو افسانہ نگاری کے فن میں رقم کرنے سے پہلے ہو جاتی تو شاید ہم کچھ دیر تک افسانہ نگاری کے اصولوں پر بات کرتے تو شاید ان کرداروں اور افسانوی واقعات کے ساتھ اور بھی انصاف کر جاتی۔‘‘
البتہ بلوچی کے نام ور فکشن نگار منیر بادینی نے کی رائے عجب ہی سماں باندھتی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ یا تو انھوں نے بنا پڑھے محض مروتاًرائے لکھی ہے، اور اگر پڑھ کر لکھی ہے تو انصاف نہیں کیا۔ مثلاً وہ کہتے ہیں،’’ زیب لونی نے افسانے پر جو تجربات کیے ہیں، وہ قابلِ ستائش ہیں۔‘‘ کون سے تجربات کیے ہیں؟ یہ نہیں بتایا۔ مزید لکھتے ہیں،’’ ۔۔۔مجھے حیرانی ہوئی کہ زیب لونی نے ایک ہنر مند فن کار کی طرح اپنے احساسات اور جذبات کی عکاسی لفظوں میں اس طرح کی ہے کہ ایک حقیقی تحریر سامنے آئی ہے۔‘‘ کمال ہے صاحب،کیا کوئی ادبی تحریر ’غیر حقیقی‘ بھی ہوتی ہے؟ادب حقیقت ہی کا تو عکاس ہے،تو پھر اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ ۔ نیز انھوں نے مصنفہ کو’ ہنرمندفن کار‘ قرار دیا ہے۔ جب کہ دیگر زعما کی رائے میں(اور مصنفہ کی تحریروں کی روشنی میں بھی) ہم نے دیکھا کہ وہ تحریر کے ساتھ ’ہنر‘ کی سطح پر نہیں بلکہ ’اخلاص‘ کی سطح پر جڑی ہوئی ہیں۔ اخلاص، تخلیقِ ادب کی ایک لازمی شرط تو ضرور ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ فن کے بنا ادب پارہ مکمل نہیں ہوتا۔اس لیے مصنفہ کو ایسی روایتی آرا سے درگزر کرتے ہوئے تحریر سے فن کی سطح پر جڑنے کا سفر ابھی طے کرنا ہے۔
نیز مصنفہ تخلیقِ ادب میں جس قدر سنجیدہ ہیں،کتاب کی طباعت اورپیشکش میں اتنی ہی غیر سنجیدگی برتی گئی ہے۔ کتاب پر پبلشر کا نام غائب ہے، لگتا ہے کہ عمومی رواج کی طرح مصنفہ نے خود جیب سے کتاب چھاپی ہے۔ اس لیے پرنٹنگ پریس کا نام بہ طور پبلشر درج ہو گیا ہے۔ پریس والا، پبلشر کا کام کرے گا تو وہ ایسا ہی ہو گا، جیسا جملہ حقوق کی ذیل میں لکھا ہے:’’اس کتا ب کے تمام مضامین کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔‘‘ حالاں کہ اسی صفحے پرکتاب کی صنف کو بہ طور افسانہ واضح کر کے لکھا گیا ہے۔
پروف کی جا بہ جا اغلاط مطالعے کی روانی کوشدید متاثر کرتی ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ بڑی غلطی یہ ہے کہ کسی بھی کہانی میں مکالموں کو واوین میں نہیں لکھا گیا۔ اکثر کہانیوں میں تو مختلف کرداروں کے مکالمے ایک ہی سطر میں درج ہیں۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کس کا مکالمہ کہاں ختم ہوا، اور کہاں سے دوسرا مکالمہ شروع ہوا۔ایک عام اور بالخصوص نئے قاری کے لیے اس سے عدم ابلاغ کا مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔
غیر سنجیدگی کی دوسری اہم مثال یہ ہے کہ تخلیقی کہانیوں کی کتاب کے درمیان میں دو ترجمہ شدہ افسانے بھی شامل کیے گئے ہیں، جنھیں سندھی زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ دوسرا غضب یہ کہ ان افسانوں پر ااصل مصنفین کا نام ہی درج نہیں۔ نیز یہ دو افسانے مصنفہ کے مجموعی طرزِ فکر سے نہایت جداگانہ موضوع کے حامل ہیں۔ خود ان کی پندرہ کی پندرہ کہانیاں جہاں سماجی معاملات کو زیر بحث لاتی ہیں(ماسوائے ایک کہانی ’اعترافِ شکست‘ کے، جسے نیم رومانوی کہا جا سکتا ہے)، وہیں ترجمہ شدہ دونوں افسانے خالص رومانوی فکر پہ مشتمل ہیں۔ نیز فنی طور پر بھی کم زور افسانے ہیں۔ اس لیے اس کتاب میں ان کی اشاعت ہر لحاظ غیر ضروری ہے۔ یہ کتاب کے مجموعی سنجیدہ پن کو گہنا رہے ہیں۔
اشاعتی اور طباعتی خامیوں اور کرافٹ کی کم زوریوں سے قطع نظر(حالاں کہ ان سے قطع نظر کہاں ممکن ہے!)، یہ کتاب کئی پہلوؤں سے قابلِ تحسین ہے۔ یہ گذشتہ پندرہ برسوں میں سامنے آنے والے افسانوی ادب میں موضوعاتی سطح پر نہایت منفرد ہے۔ اس میں صرف ایک کہانی ’جلتے خواب‘ ہی سیاسی معروض کے بیانیے پہ مشتمل ہے(یہ ویمن یونیورسٹی میں ہونے والے بم دھماکے کے پس منظر میں لکھی گئی ہے)، باقی تمام کہانیوں کے کردار اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ انہیں عمومی طور پرادب اور بالخصوص فکشن کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔ تسلسل سے فکشن لکھنے والے ہمارے ایک ہی فکشن نگار جناب آغا گل، جن کا یہ خوب صورت فقرہ بارہا دہرانے کے قابل ہے کہ، ’جب مرنا ہی ہے تو بندہ افسانہ لکھتے ہوئے کیوں نہ مرے۔۔۔‘ جنھوں نے لاپتہ اور مسخ زدگی سے لے کر اغوا برائے تاوان اور صحافیو ں کے قتل جیسے موضوعات کو بھی کہانیوں میں سمویا۔ڈاک نظام سے محکمانہ وابستگی کے باوصف یہ موضوع تو انہیں مرغوب رہا۔ (حالاں کہ ان کا پس منظر بھی سبی کا ہے اور فاضل مصنفہ کا بھی)، لیکن ان کرداروں سے وہ بھی نظر بچا گئے، جنہیں زیب لونی نے زیبِ داستاں بنا لیا۔
سو‘ یہ داستاں، اس سے جڑی کہانیاں بلاشبہ پڑھے جانے اور پڑھائے جانے کے قابل ہیں۔
محترم حمید شاہد نے مصنفہ کی کتاب پر اپنے مختصر اظہاریے کو ’زیب کا سفاک قلم‘ کا عنوان دیا ہے۔ میری مؤدبانہ عرض ہے کہ یہ قلم سفاک توہے مگر ابھی کند ہے، وہ آلہ جس سے اسے تیز دھار کیا جا سکتا ہے، اسے کرافٹ کہتے ہیں۔ زیب لونی کوکہانی سے اپنی کمٹ منٹ کو کرافٹ سے جوڑنا ہو گا، تبھی ان کی کہانی کی کائنات مکمل ہو گی۔

پسِ نوشت: سو صفحات کی کارڈ بائنڈنگ میں چھپی کتاب کی قیمت 300روپے ہے، جو کسی صورت مناسب نہیں۔ بالخصوص ان کے لیے، جو کتاب خرید کر پڑھنے کے عادی ہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے