برطانیہ یورپی یونین سے نکل گیا اور پورا یورپ ہل گیا۔ جغرافیائی تبدیلیاں تو ابھی ہونی ہیں مگر کپٹلزم کے معاشی نظام میں جو بھونچال آرہا ہے وہ زلزلے کے مرکز سے زیادہ اُس کے مضافاتی تیسری دنیا میں بربادیاں کھڑی کرے گا۔ حیرت یہ ہے کہ سوشلسٹ بلاک کے منہدم ہونے کے تیس سال بعد جاکر یہ لا وا پک کر پھٹ پڑا۔ چشمِ انساں نے ابھی سلسلہِ زنجیر کے پیچ و تاب کو مزید دیکھنا ہے۔
کپٹلزم کے اس بہت بڑے بحران کا نوٹس لینا ہمارے لیے اس لیے ضروری تھا کہ اب ممالک کے اندر تبدیلیوں میں داخلی سے زیادہ خارجی عوامل فیصلہ کن ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا خطہ تبدیلیوں کی زد میں جو آگیا اِس فیصلے سے ۔انسانیت سوز نظام کا پیٹ پھٹنے کو ہے۔
باقی رہا بلوچستان کا صوبائی بجٹ، تو سچی بات یہ ہے کہ ہم نے بلوچستان کے صوبائی بجٹ پر کبھی بھی بات نہ کی۔ اس لیے کہ کوئی بات بنتی ہی نہ تھی۔ اگر واقعی میں یہ بجٹ اسمبلی ممبران بناتے بھی ہیں تو اُن کی اپنی حقیقت کا معمولی ساکھوج لگانے پر ہم بجٹ پر بات کرنے سے دستبردار ہوتے رہے ہیں۔ ٹکٹیں دلانے والی قوتوں کی اندھی آنکھیں او ل تو سردارکے بغیرکچھ دیکھتی نہیں اور اگر کچھ بصارت مل بھی جائے تو یہ لمپن کلاس پہ جاکر اٹک جاتی ہے۔لہٰذا یہی دو عناصرہمارا بجٹ’’ بناتے ہیں‘‘۔
مضحکہ خیزی دیکھیے کہ بے رحموں نے انہی طبقات پر مشتمل ممبران کو اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے لیے احتساب و باز پرس سے پاک، کروڑ کروڑ روپیہ سال کا تھما رکھا تھا ۔ اس پینسٹھ کروڑ سالانہ نے کہاں جانا تھا؟ بھئی سردار کو تو محض بنگلے اور بڑی گاڑیوں ہی کا پتہ ہے۔ اسے نئی دنیا کا پتہ ہی نہیں جو کہ مینوفیکچرنگ کی دنیا ہے۔ لمپن طبقہ بھی اُسی کی پیروی کرتا رہا۔ چنانچہ رئیل سٹیٹ ہی مضبوط ہوگیا۔ رئیل سٹیٹ خواہ لندن، دبئی ہوں ، یا کراچی کوئٹہ ۔ بنگلے ہی بنگلے ، وی گو،ہی ،وی گو۔ ایک بھی صنعت نہ لگی، نہ چھوٹی نہ بڑی ۔ ایک بھی کیٹل یا شپ فارم نہ بنا ، ایک بھی سمندری حیات کی سکیم نہ بنی، ایک بھی ڈیم صوبائی حکومت میں نہ بنا، معدنی دولت پر ایک بھی کارخانہ نہ لگا ۔۔۔۔۔۔ سو بے روزگاری ہی بے روزگاری ہے، کرپشن ہی کرپشن ہے، باڈی گارڈ ہی باڈی گارڈ ۔
بس گوادر بندرگاہ ہے، چین ہے اور سی پیک ہے۔ اوریہ تینوں لا متناہی معدہ رکھتے ہیں جو نہ پتھر ( معدنیات) چھوڑتے ہیں، اور نہ مینڈک مچھلی سے ان کا پیٹ بھرتا ہے۔ رُوٹ مختصر کرکرکے برباد کرتے چلے جاتے ہیں۔
یوں مغربی صنعتی جمہوریت دنیا کے اِس کونے میں ما قبل جاگیرداری نظام کو مضبوط کرنے کا کام کررہی ہے۔بلوچستان کا بجٹ سرداری نظام کو ہی مضبوط کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ نہ صرف یہاں بلوچستان میں بلکہ جہلم اور کلرسیداں میں بھی۔