اگر تم مری دوست ہوتیں
تو میں تم سے کہتا وہ باتیں
جو اب تک سنی ہیں
نہ آئندہ سننے کا سوچا ہے تم نے
.
اگر تم مری دوست ہوتیں
تو میں اک ستارے کو کشتی بنا کر
بٹھا کر تمہیں اس میں
کھیتا ہوا اس خلا کے سمندر میں
لا انتہا دید کے ساحلوں تک
دکھاتا وہ صورت
جو صورت کے پردے میں گم ہے
ابد میں ازل گھول کر
ایک لمحہ بناتا
اور اس لمحے کا ایک جرعہ
تمہیں بھی پلاتا
اگر تم مری دوست ہوتیں
.
اگر تم مری دوست ہوتیں تو میں
میں نہ رہتا
میں گزرے زمانوں میں
آتے زمانوں کا
تیراک بنتا
میں روکے ہوئے سانس
نیچے ہی نیچے اترتا ہوا
سطح سے لے کے آتا
وہ لولو، وہ مرجاں
میں جس میں دکھاتا جہاں
پہلے تم نے جو دیکھا نہ ہوتا
( 2 )
یہ سب کچھ
یہ لا انتہا اور مقدس
سمندر رگوں میں
ستارے ہمارے جواہر
یہ سب کچھ وراثت ہماری
تو ہم ہست کے ساحلوں سے
نکلتے سفر پر
یہ سب کچھ
یہ لا انتہا اور مقدس ہماری وراثت
ہم ان میں رواں
اور نہ ان سے جدا
نور کے رتھ پہ بیٹھے ہوئے
ہاں اگر تم مری دوست ہوتیں