رات کے وقت قافلہ سرائے کو جانے والی ویران سڑک پر دو نوجوانوں کا راستہ روک کر اُنہیں لُو ٹنے کی کوشش کی گئی۔ لُوٹنے والے بھی دو اشخاص ہی تھے۔نوجوانوں نے مزاحمت کی تو ایک لُٹیرے نے اٹھارہ برس کے نوجوان کو بانہوں کے گھیرے میں جکڑکربے بس کردیا اور دوسرے لُٹیرے نے سترہ برسوں کے نوجوان پر خنجرسے پے درپے وار کرنے شرع کیے۔
کچھ ہی فاصلے پرموجود سپاہی نے یہ منظردیکھا اور اندھیرے میں چھپ کرکھڑاہوگیا،حالانکہ بادشاہی سلطنت کے سالار نے رعایا کی حفاظت کے لیے تمام سپاہیوں کوتیرکمان اور تلواریں بھی دے رکھی تھیں۔ لیکن سپاہی لُٹیروں کوللکارنے کے بجائے اپنے اسلحہ کے ساتھ اندھیرے میں چھپارہا۔
کچھ ہی دیر میں لُٹیرے دونوں نوجوانوں کا سامان لے کر اندھیرے میں گم ہوگئے۔ خنجر تڑپتے ہوئے نوجوان کے پیٹ میں ہی کھُبا ہواتھا۔ تڑپتے نوجوان کے دوست نے سرعت کے ساتھ اپنے دوست کے پیٹ سے خنجر کھینچ کر نکالا اور مدد کے لیے پکارنے لگا۔ تاریکی میں چھپا ہوا سپاہی یکدم پہنچ گیا اور اُس نے خنجر ہاتھ میں پکڑے بیٹھے نوجوان کو ہتھ کڑی میں جکڑلیا۔
سپاہی کو اس ہمت اور بہادری پر انعام دیاگیا۔ اس کی پگڑی میں ترقی کا ایک اور پنکھ بھی لگادیا گیا اور ملزم کو شہرکے قاضی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔
اٹھارہ برس کا نوجوان اپنے سترہ سا لہ دوست کو قتل کرنے کے الزام میں انصاف کے کٹہرے میں کھڑاتھا۔
قاضی نے پوچھا،’’ کیا تم قتل کا اعتراف کرتے ہو؟‘‘
نوجوان نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا،’’ نہیں، میں نے قتل نہیں کیا۔‘‘
قاضی نے کہا، ’’ تمہیں اپنے دفاع میں جوکچھ کہنا ہے وہ تم کہہ سکتے ہو ۔‘‘
عدالت نے ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا۔ نوجوان ملزم پوری کرشش کرنے کے باوجود اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرسکا نہ ہی اپنی صفائی میں کوئی ا یک بھی گواہ پیش کرسکا۔ جب کہ جائے واردات پر اور کوئی بھی آدمی نہ ہونے کے باوجود سپاہی نے چار آنکھوں دیکھے گواہ عدالت میں پیش کئے !
مقدمہ برسوں تک چلتا رہا۔
نوجوان ملزم کی جوانی قیدخانہ میں جلتی رہی۔ اس کی زندگی قیدخانہ کی کوٹھڑی اور عدالت کے کٹہرے تک محدود ہوگئی۔
وہ انصاف کا انتظارکرتارہا۔
قاضئ شہرکی عدالت نے اُسے حالات و واقعات اور گواہوں کے پیشِ نظر ملزم کو سزائے موت سنادی۔
قاضئ شہر کی عدالت کے فیصلہ کے بعدنوجوان ملزم نے صوبہ کی عدالت کے قاضی کے پاس اپیل کردی۔
ملزم کی زندگی قیدخانہ میں جلتی رہی۔ اُس کی زندگی حسبِ سابق قیدخانہ کی کوٹھڑی اور عدالت کے کٹہڑے تک محدود ہی رہی۔
وہ انصاف کا انتظارکرتارہا۔
کئی برسوں کے طویل انتظار کے بعد صوبہ کے قاضی کی عدالت نے بھی اُس کی سزائے موت برقراررکھی۔
صوبہ کے قاضی کی عدالت کے فیصلہ کے بعدملزم نے ریاست کے قاضی کی عدالت میں اپیل داخل کی۔
قاضئ ریاست کی عدالت میں مقدمہ چلتارہا ۔
ملزم قیدخانہ کی کوٹھڑی اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کا عادی ہوگیا اور اُس نے انصاف کا انتظارکرنا چھوڑدیا۔
برس گزرتے رہے اور ملزم کے بال سفید ہوتے رہے۔
قاضئ ریاست کی عدالت والے دن سفید بالوں والا ملزم انصاف کے کٹہرے میں سرجھکائے کھڑاتھا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے،جس کے سبب وہ کٹہرے کی لکڑیوں کو مضبوطی سے پکڑے کھڑاتھا ۔ وہ آہستہ آہستہ پُرسکون ہوتا چلاگیا اور اُس کے ہاتھوں کی لرزش تھم گئی۔
قاضئ ریاست نے فیصلہ سنایا، ’’ یہ عدالت ملزم کو بے قصورسمجھتے ہوئے اُسے آزاد کرنے کا حکم دیتی ہے۔‘‘
انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ، کھڑی حالت میں مرچکے ملزم کے لیے جنازہ اُٹھانے والی ڈولی لائی گئی اور سپاہی اُس کا جنازہ اٹھواکر قبرستان لے گیا۔
آئل پینٹ میں بنی وہ تصویر دو حصوں پر مشتمل تھی، ایک حصے میں ریستوران کا منظر تھا جہاں ایک چہرے مہرے سے متمول نظر آنے والے شخص کے سامنے انواع و اقسام کے کھانوں سے بھری میز موجود تھی جبکہ دوسرے حصے میں ایک بوڑھی عورت گھر کے کچے صحن میں چولہے پر روٹیاں پکاتے ہوئے ایک ہاتھ سے آنکھوں پر چھجا بنائے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی
یہ ایک ڈائجسٹ کے آنے والے شمارے کا سرورق تھا جس پر اسے کہانی لکھنا تھی
وہ ایک بڑا اورکام یاب قلم کار تھا، اس کی کہانیوں کی بہت مانگ تھی، ہر ڈائجسٹ اس کی کہانیاں شائع کرنا فخر محسوس کرتا، ہر کہانی کا اسے منہ معاوضہ ملتا تھا، زندگی سے کشید کی ہوئی اس کی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا عنصر اس کی ہر تخلیق کو شہ کار بنا دیتا تھا، ایک سچے کہانی کار کی حیثیت سے اس کا بھی سب کچھ کہانیاں ہی تھیں، اس کے لگڑری اپارٹمنٹ میں جہاں وہ تنہا مگر آسودہ اور خوشحال زندگی بسر کر رہا تھا، ہر طرف کہانیاں بکھری ہوئی تھیں، اس کا کھانا پینا، سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا سب کچھ کہانیوں کے ساتھ جڑا ہوا تھا، لفظ تو گویا ہاتھ باندھے اس کے آگے کھڑے رہتے، کردار اس کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے، اس کی کہانیوں کا آغاز ہمیشہ چونکا دینے والا اور اختتام اتنا غیر متوقع ہوتا کہ پڑھنے والا داد دیئے بغیر نہ رہ پاتا اور یہی اس کی سب سے بڑی کامیابی تھی
زندگی اس کے لئے کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی تھی، کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لئے اس نے بھی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی تھی، وہ ان پر آشوب دنوں کو کبھی بھول نہیں پایا تھا جب ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں اس نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا
رات کو دیئے کی ٹمٹماتی لو میں جب اس نے اپنے مریض باپ کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ علی الصبح وہ شہر چلا جائے گا تو اچانک ہی کھانسی کے شدید دورے میں ایک مجبور باپ کی آہوں اور سسکیوں نے دم توڑ دیا، ماں کا تو چہرہ ہی فق ہوگیا تھا
صبح صادق کے وقت جب وہ سب کو سوتا چھوڑ کر آنکھوں میں ایک روشن مستقبل کے سپنے سجائے گھر سے نکلا تو اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ سفر کتنا طویل ہوجائے گا، اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ جب تک وہ کچے رستے پر چلتا ہوا شہر جانے والی پکی سڑک تک نہیں پہنچا، بالکونی میں کھڑی اس کی ماں زیرلب دعاؤں کے ساتھ اس کے گرد حفاظتی حصار بناتے ہوئے اداس نظروں سے اس کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی تھی
شہر کے سینے میں ماں کا دل نہیں ہوتا کہ بانہیں پھیلا کر سینے سے لگالے، شہر والوں کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں، اپنا ہی ایک تمدن، ایک طرز زندگی ہوتا ہے، شہر میں رہنے کے لئے شہر والوں جیسا بننا پڑتا ہے، شہر کی تیز رفتار زندگی میں جو زرا سا بھاگ کر تھک جائے وہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے، اتنا پیچھے کہ واپس جانے کے قابل بھی نہیں رہتا، شہر نے اس کے ساتھ بھی روایتی سرد مہری کا مظاہرہ کیا تھا، وہ ہراساں نظروں سے اپنے ارد گرد کے سفاک ماحول کو دیکھتا رہا جہاں لالچ تھا، خود غرضی تھی اور مفاد پرستی کا دور دورہ تھا، اس کا کل اثاثہ وہ چند سو روپے جو باپ نے اس رات بستر لیٹنے سے پہلے اس کی جیب میں اڑس دیئے اور خود آنکھیں بند کرکے ساری رات جاگتا رہا تھا، ایک بیگ میں دو تین کپڑوں کے جوڑے اور چند رسالے تھے جس میں اس کی کہانیاں چھپی تھیں اور جن میں ایک رسالے کے مدیر نے اسے خط لکھ کر یقین دلایا تھا کہ اگر وہ شہر آجائے تو وہ اس کے لئے نوکری کا بندوبست کرنے کی پوری کوشش کرے گا
مدیر صاحب نے اس سے دو تین کہانیاں لکھوائیں اور تھوڑے دن بعد رابطہ کرنے کو کہا، اس نے کئی چکر لگائے مگر وہ خوش قسمت دن کبھی نہ آیا جب مدیر صاحب اسے نوکری کا مژدہ جانفزا سنا دیتے، اس کی کہانیاں چھپ گئی تھیں لیکن معاوضہ دینا تو اس ادارے کی پالیسی میں ہی نہیں تھا، نوکری کی تلاش میں اس کی جوتیاں گھس گئی تھیں، گزر اوقات کے لئے اسے ہوٹلوں، ورکشاپوں اور پٹرول پمپوں پر بھی کام کرنا پڑا، اس نے کئی راتیں پارکوں اور فٹ پاتھوں پر بھی گزاری تھیں، ایک رات پارک کے ایک سنگی بنچ پر لیٹے ہوئے اس نے تاروں بھرے آسمان کو دیکھا تو اسے اپنے گاؤں کی چاندنی راتیں یاد آگئیں اور اس نے حسرت سے سوچا کہ کیا اس کی قسمت کا ستارہ بھی کبھی چمکے گا یا وہ شہاب ثاقب کی طرح اچانک ہی پھسل کر تیزی سے جلتا ہوا راکھ ہوجائے گا؟
بے سروسامانی کے اس کڑے وقت میں اس نے زندگی کی تلخیوں اور بدلتے رویوں کو بہت قریب سے دیکھا، انسانی نفسیات کو پرکھا اور پھر اس کی کہانیوں میں حقیقت کا رنگ جھلکنے لگا، لوگ اس کی کہانیوں کا انتظار کرنے لگے، اس کے نام پر رسالے بکنے لگے، اس کی کہانیوں کی ڈیمانڈ بڑھی تو معاوضہ بھی ملنے لگا، پہلے وہ کچی آبادی کی ایک بیٹھک میں رہتا، حالات بہتر ہونا شروع ہوئے تو پہلے اس نے ایک مکمل گھر کرائے پہ لیا اور پھر ایک گاڑی اور لگڑری اپارٹمنٹ.. اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر بھی باقاعدگی سے پیسے بھجوا رہا تھا، زندگی بہت سہل اور آرام دہ ہوگئی تھی بس ایک قلق تھا کہ وہ مصروفیت کی دلدل میں ایسا دھنسا کہ شدت کے ساتھ چاہنے کے باوجود دوبارہ گھر نہیں جاسکا تھا
یہ زندگی میں پہلا موقع تھا کہ سرورق کے مطابق کہانی اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، وہ تصویر اس کے ذہن سے چپک کر رہ گئی تھی، اس نے کہانی بنانے کے لئے کئی موضوعات پر طبع آزمائی کی، کئی صفحات لکھ کر پھاڑ دیئے، بات کچھ بن نہیں رہی تھی، آخر زچ ہوکر اس نے لکھنے کی کوشش ترک کر دی، باہر موسم ابر آلود تھا، دور کہیں بجلی چمک رہی تھی اس نے برساتی پہنی اور باہر نکل آیا، اس کا پسندیدہ ریستوران قریب ہی تھا، وہ پیدل ہی چل پڑا، اس کے خدشے کے عین مطابق راستے میں بارش شروع ہوگئی، اس کی نظر چاروں طرف گھوم رہی تھیں، چوک سے مڑتے ہی اسے خالی پلاٹ پر جھگی والی بھٹیارن نظر آئی جو بارش میں نہاتے اپنے بچوں کو پکڑنے کے لئے پاگلوں کی طرح دوڑتی پھر رہی تھی، اس نے ایک لمحے کے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ کیا یہ اس کہانی کا کردار ہوسکتی ہے؟ اس کے زرخیز کہانی کار دماغ نے فورا نفی کر دی
ریستوران کے باہر اس نے ایک بھکارن کو دیکھا جس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے اور وہ ان کی بھوک مٹانے کے لئے ہر آنے جانے سے بڑی لجاحت کے ساتھ پیسے یا کھانا مانگ رہی تھی، اسے اس عورت پر صرف اتنا ترس آیا کہ اس نے بٹوے سے چند کرنسی نوٹ نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیئے اور وہ اسے دعائیں دیتی ہوئی اپنے بچوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھ گئی ، یہ تو اس سرورق کی کہانی کا بالکل بھی کردار نہیں ہوسکتی تھی ، ایسی عورتوں کی وہ بہت سی کہانیاں لکھ چکا تھا اور اس بار کچھ نیا لکھنا تھا اس نے کھانے کا آرڈر دیا تو اسی دوران اس کے موبائل کی بیل بج اٹھی، اس نے موبائل نکالا، اسکرین پر اس کے باپ کا نمبر جگمگا رہا تھا، اس نے کال اٹینڈ کی تو لائن کے دوسری طرف اس کی ماں تھی، وہ ماں سے باتیں کرنے لگا، اس کی ماں بتا رہی تھی کہ اسے پیسے مل گئے، اس کے باپ گھر کی ڈیوڑھی پکی کروا دی ہے، چھوٹے بھائی نے میٹرک پاس کرلیا ہے، ماموں کے بیٹے سے اس کی بہن کا رشتہ پکا کر دیا ہے، باپ کی دوائی بھی آگئی ہے، اس کی سادہ سی ماں سادگی سے اسے بتا رہی تھی پھر اچانک وہ بولی ” پتر تم کب گھر آؤگے؟” "ماں ابھی کچھ پتہ نہیں، بہت مصروف ہوں” اس نے صاف گوئی سے کام لیا "اتنے مصروف ہو کہ ماں کے لئے بھی وقت نہیں” ماں نے تڑپ کر کہا
"ایسی بات نہیں ہے ماں جی، میں بہت جلد آپ کے پاس آجاؤں گا”
"مجھے پتہ ہے تم نہیں آؤگے، تمہیں اکیلے رہنے کی عادت ہوگئی ہے، تم بڑے بڑے ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہو، تمہیں اب ماں کے ہاتھ کا کھانا کہاں پسند آئے گا” ماں کی آواز بھیگ گئی تھی ” تم ایک مدت سے گھر نہیں آئے اور پتہ نہیں کب آؤ، لیکن میری نظریں شام ہوتے ہی دروازے پر لگ جاتی ہیں کہ شاید آج تم آجاؤ، تمہارے لئے روٹی پکا کے رکھتی ہوں کہ اگرتم اچانک واپس آگئے تو تمہیں بھوکا نہ سونا پڑے”
اس بڑے کہانی کار کے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا، بے ساختہ ہی آنسو چھلک پڑے، سارا منظر واضح ہوگیا، ساری کڑیاں مل گئیں، وہ بوڑھی عورت کا روٹیاں پکاتے دروازے کو تکتے رہنا، وہ ریستوران میں بے فکری سے کھانا کھاتا ہوا شخص دوسروں کی کہانیاں لکھتے لکھتے وہ آج خود ایک کہانی بن گیا تھا