ابھی شہرِ جاناں کی کس کو خبر ہے
یہ کیا موڑ ہے،رہ گزر کس طرف ہے
ابھی منزِِلِ شب کی لمبی گھڑی ہے
’’شبِ دوستاں‘‘ کی اِسی تیر گی میں
نجاتِ دل و جاں کے ارماں کی خاطر
دیئے بھی جلیں اور تارے بھی ہر پہل
حسابِ دل و جاں بہت ہے
نصابِ محبت کا لمبا سفر ہے
اس سچ کے لمبے سفر میں
بہت سی ہیں درپیش سنسان راہیں
اور ان سْونی راہوں پہ نو کیلے پتھر پڑے ہیں
اور ان راستوں پہ چلیں تو
یہ پتھر فقط پاؤں کے پھول تلووں نہیں
دل کی نرم اور نازک سی وادی کو بھی چھیلتے ہیں
سبھی حوصلے پست ہوتے ہیں آخر
نگاہوں کے در یچوں پہ ہر دم
فریبِ نظر کے حسیں دائرے سے بھنور ڈالتے ہیں
سحر کے خوش کْن اجالوں
اْس(سحر) کے حسیں پیر ہن تک
پہنچنے کی خاطر
ابھی راہ میں دکھ کی لمبی لڑی ہے
ابھی شہرِجاناں کی کس کو خبرہے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے