جینیوآ میں ریلوے سٹیشن کے سامنے والے چھوٹے سے چوک میں لوگوں کا ایک بہت بڑا مجمع جمع ہو گیا تھا۔ان میں زیادہ تر مزدور تھے۔ لیکن کافی تعدا دخوب اچھی طرح کھائے پئے ، خوش پوشاک لوگوں کی بھی تھی ۔ مجمع کے سامنے میونسپلٹی کے اراکین کھڑے تھے اور ان کے سروں کے اوپر شہر کا بھاری ، ریشمی جھنڈا لہرا رہا تھا جس پر فنکارانہ خوبصورتی سے کشیدہ بنا ہوا تھا ، اور اس کے قریب ہی مزدوروں کی تنظیموں کے رنگا رنگ جھنڈے اپنے سر ہلا رہے تھے ۔ سنہری پھندنے ، ڈوریاں اور جھالر جگمگ جگمگ کر رہے تھے ، جھنڈوں کے بانسوں کے سرے چمک رہے تھے ، ریشم سر سرا رہا تھا اور خوش و خرم مجمع میں سے ایک مدہم غنغناہٹ کی آ واز نکل رہی تھی جو سرود خوانوں کی ٹولی کے دہیمے سروں میں گانے سے مشابہ تھی ۔
اوپر کولمبس کا مجسمہ اپنی بلند کرسی پر استادہ تھا ۔ وہ خوابوں کی دنیا کا باسی جس نے اپنے ایمان و یقین کی وجہ سے اتنی تکلیفیں اٹھائیں اور اسی ایمان و یقین کی بدولت کامیاب بھی ہوا۔ آ ج وہ بھی لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور اس کے مر مریں لب یہ کہتے ہوئے معلوم ہو رہے تھے :
’’صرف وہی لوگ کامیاب ہو سکتے ہیں جو یقین و ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘
موسیقاروں نے اپنے ساز کولمبس کے پیروں کے پاس، اس کی کرسی کے چاروں طرف ، رکھ دئے تھے اور دھوپ میں پیتل سونے کی مانند جگمگا رہا تھا۔
سٹیشن کی بھاری مر مریں عمارت ایک گہرے ہوتے ہوئے نیم دائرے کی شکل میں کھڑی تھی اور اپنے بازو ا س طرح پھیلائے ہوئے تھی گویا منظر مجمع سے ہم آ غوش ہونے کی خواہش مند ہو۔ بندرگاہ سے دخانی جہازوں کے بھاری بھاری سانسوں کی اور جہازوں کے دھکیلوؤں کی پانی کو بلونے کی دبی دبی آ وازیں اور زنجیروں کی کھڑ کھڑاہٹ ، سیٹیاں اور شوروغل کی آ وازیں سنائی دے رہی تھیں ۔ اور تپتے ہوئے سورج کے نیچے چوک میں گرمی ، گھٹن اور خاموشی طاری تھی ۔ بالکنیوں میں اور مکانوں کی کھڑکیوں کے پاس عورتیں ہاتھوں میں پھول لئے کھڑی تھیں اور ان کے نزدیک کھڑے ہوئے بچے ، تہواری لباس میں ملبوس خود پھولوں کی مانند معلوم ہو رہے تھے۔
جس وقت ریل سیٹی بجاتی ہوئی سٹیشن میں داخل ہوئی تو مجمع میں حرکت پیداہوئی اور کئی مسلے اور کچلے ہوئے ہیٹ کالی کالی چڑیوں کی طرح ہوا میں اڑنے لگے ۔ موسیقاروں نے اپنے اپنے ساز سنبھالے اور چند سنجیدہ اور مسن لوگ اپنے لباس وغیرہ کو ذرا ٹھیک ٹھاک کر کے آ گے بڑھے ، مجمع کی طرف رخ کیا اور جو شیلے انداز میں دائیں بائیں اشارے کر کر کے کچھ بولنا شروع کر دیا ۔
آہستہ آ ہستہ اور بھاری قدموں کے ساتھ مجمع بیچ میں جگہ چھوڑ کر ادھر ادھر ہو گیا اور سڑک تک ایک چوڑا راستہ بن گیا ۔
’’یہ لوگ کس سے ملنے آئے ہیں ؟‘‘
’’پارما کے بچوں سے !‘‘
پارما میں سٹرائک ہو رہی تھی ۔ مالک ذرا سا بھی جھکنے کو تیار نہیں تھے اور مزدوروں کی حالت اس قدر بری ہو چکی تھی کہ انہوں نے اپنے بچوں کو فاقوں سے بچانے کے لئے جینو آ بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔
سٹیشن کی عمارت کے ستونوں کے پیچھے سے نیم برہنہ ننھے منے انسانوں کا یک با ترتیب جلوس نمودار ہوا۔ وہ اپنے تار تار لباسوں میں عجیب و غریب ، جھبر ے اور چھوٹے چھوٹے جانوروں سے مشابہ تھے ۔ وہ ننھے منے ، گرد آ لود خستہ و ماندہ ، پانچ پانچ کی قطار میں ، ہاتھ میں ہاتھ دئے چلے آ رہے تھے۔ ان کے چہرے گمبھیر تھے لیکن آ نکھیں زندگی کے آ ب و تاب سے منور تھیں اور جب مو سیقاروں نے ترانہ ’’گیری بالڈی ‘‘کی دھن چھیڑ دی تو ان دبلے سوکھے فاقہ زدہ ، ننھے ننھے چہروں پر خوشی کی مسکراہٹ کی ایک لہر دوڑ گئی ۔
مجمع نے ایک فلک شگاف نعرے کے ساتھ مستقبل کے ان مردوں اور عورتوں کا استقبال کیا ، ان کے سامنے جھنڈے جھکائے گئے ، پیتل کے بگل بجنے لگے ، اور ان چیزوں نے بچوں کو کچھ چکا چوند اور مبہوت سا کر دیا۔ اس خیر مقدم سے کچھ حیران پریشان سے ہو کر وہ ایک لمحے کے لئے پیچھے ہٹے اور پھر یکبار گی وہ اس طرح سیدھے تن کر کھڑے ہو گئے کہ پہلے سے زیادہ لمبے معلوم ہونے لگے اور ایک دوسرے سے سمٹ کر ایک واحد جسم میں تبدیل ہو گئے اور کئی سو گلوں سے ایک ہی آ واز نکلی :
’’ ویوا اتالیہ!‘‘۔
( اتالیہ زندہ باد)۔
’’ نوجوان پارما زندہ باد! ‘‘۔ مجمع ان کی طرف دوڑتے ہوئے چلاّیا۔
’’گیری بالڈی زندہ باد!‘‘ بچے ایک بھورے بھورے گاؤدم مثلث کی شکل میں مجمع کے اندر گھس کر اس میں غائب ہوتے ہوئے چلائے۔
ہوٹلوں کی کھڑکیوں میں سے اور مکانوں کی چھتوں پر سے رومال سفید پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہاں سے لوگوں کے سروں پر پھولوں کی بارش ہورہی تھی اور مسرور اور مگن آوازیں برس رہی تھیں۔
ہر چیز پر ایک تہواری رنگ چھا گیا ہر چیز میں جان پڑ گئی، یہاں تک کہ مٹیالے سے رنگ کے سنگ مر مر میں بھی جا بجا کچھ خوش رنگ سے دھبے کھل اٹھے۔
فضا میں جھنڈے لہرائے ، ٹوپیاں اور پھول اوپر اچھالے گئے، بچوں کے ننھے ننھے سرمجمع کے سروں سے اونچے اٹھے اور چھوٹے چھوٹے میلے کچیلے ہاتھ جو سلام کے لیے پھیلے تھے، ہوا میں لہراتے ہوئے پھولوں کو پکڑنے کی کوشش کرنے لگے اور فضا اس عظیم نعرۂ مسلسل سے گونجنے لگی:
’’ سوشلزم زندہ باد‘‘۔
’’ اطالیہ زندہ باد!‘‘۔
تقریباً سارے بچے ہاتھوں میں اٹھالیے گئے تھے، بعض بڑے آدمیوں کے کاندھے پر سوار تھے اور بعض سخت اور روکھے، گل مچھوں والے مردوں کے چوڑے سینوں سے لگے ہوئے تھے ۔ شورو شغب اور قہقہوں میں موسیقی کی آواز تقریباً بالکل دب گئی تھی۔
عورتیں مجمع میں ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں، باقی ماندہ نوواردوں کو گود میں اٹھا رہی تھیں اور ایک دوسرے سے چلا چلا کر پوچھ رہی تھیں:
’’ انیتا ، تم دو لوگی نا؟‘‘۔
’’ ہاں ۔۔۔۔۔۔ اور تم ؟‘‘۔
’’ ایک لنگڑی مارگریٹ کے لیے لے جانا نہ بھولنا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ایک پر مسرت جوش و ھیجان کا احساس ہر جگہ طاری و ساری تھا، ہر طرف خوشی سے کھلے ہوئے ، مسکراتے چہرے اور محبت آمیز، پر نم آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں اور اسٹرائک کرنے والوں کے بعض بچوں نے ابھی سے روٹی کھانی شروع کردی تھی۔
’’ ہمارے وقتوں میں کسی کو اس کا خیال نہیں آیا تھا‘‘۔ ایک چونچیلی ناک والے بوڑھے نے، جو اپنے دانتوں کے بیچ میں ایک سیاہ سگار دبائے ہوئے تھا، اظہار خیال کیا۔
’’ اور ہے یہ کس قدر سادہ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ ہاں ! سادہ اور معقول۔۔۔۔۔۔‘‘۔
بوڑھے نے اپنے منہ میں سے سگار نکالا، اس کے سرے پر ایک نظر ڈالی اور راکھ جھاڑتے ہوئے اس نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا ۔۔۔۔۔۔ پھر اپنے قریب دو پارما کے بچوں کو، جوقرائن سے بھائی معلوم ہوتے تھے، دیکھ کر اس نے اپنے چہرے پر ایک خوفناک رنگ پیدا کرلیا۔۔۔۔۔۔دونوں بھائی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ اپنی ٹوپی آنکھوں پر سر کالی ، اپنے دونوں بازو پھیلا لیے اور جب دونوں بھائی تیوری پر بل ڈال کر ایک ساتھ پیچھے ہٹے تو یکبارگی وہ پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا اور مرغے کی طرح ککڑوں کوں، ککڑوں کوں کرنے لگا۔ بچے اپنے ننگے پاؤں کے تلوے پتھر کے فرش پر مار مار کر بے تحاشہ قہقہے لگانے لگے۔۔۔۔۔۔ وہ آدمی اٹھا، اپنی ٹوپی درست کی اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ وہاں سے چل دیا۔۔۔۔۔۔ وہ یہ محسوس کررہا تھا کہ اس نے اپنا فرض پورا کردیا ہے ۔۔۔۔۔۔
ایک سفید بالوں والی کبڑی عورت، جس کا چہرہ ایک جادوگرنی کا سا تھا اور جس کی ہڈیالی ٹھوڑی پر سخت سخت، سفید بال اگے ہوئے تھے، کولمبس کے مجسمے کے پاؤں کے قریب کھڑی رو رہی تھی اور اپنی لال آنکھوں کو اپنی بد رنگ چادر کے کنارے سے پونچھ رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔ وہ کالی اور بدصورت عورت اس پر جوش مجمع کے بیچ میں بالکل یک و تنہا سی لگ رہی تھی۔
ایک سیاہ بالوں والی نوجوان جینوآ ئی عورت سبک قدموں سے چلتی ہوئی آ ئی ۔ وہ ایک تقریباََ سات سالہ مرد کو انگلی پکڑ کے ساتھ لا رہی تھی جس نے پاؤں میں پیکڑے پہن رکھے تھے اور سر پر ایک بھورے رنگ کا اتنا لمبا چوڑا ہیٹ اوڑھے ہوئے تھا جو تقریباََ اس کے شانوں تک پہنچ رہا تھا ۔ وہ بار بار ہیٹ کو اپنی آ نکھوں کے اوپر سے ہٹانے کے لئے اپنے ننھے سے سر کو جھٹکے دے رہا تھا لیکن وہ برابر پھسل کر اس کے چہرے پر آ ئے جا رہا تھا۔ �آخر کار اس عورت نے ہنستے اور گاتے ہوئے اسے ہٹا کر ہوا میں اچھال دیا اور بچے نے، جس کے چہرے پر تبسم کی کلیاں کھلی جا رہی تھیں ، اسے دیکھنے کے لئے سر کو پیچھے ڈالا اور پھر اسے پکڑنے کے لئے کودا اورا سی وقت وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔
ایک لمبا تڑنگا آ دمی جس نے چمڑے کا پیش بند پہن رکھا تھا، ایک چھ سالہ بچی کو اپنے کندھے پر بٹھائے لئے جا رہا تھا، وہ ایک ننھی منی بھوری چوہیا جیسی تھی ۔
’’تم سمجھیں میرا کیا مطلب ہے ؟‘‘۔ اس نے ایک عورت سے کہا جو اس کے ساتھ سا تھ ایک آتشی سرخ رنگ کے بالوں والے چھوٹے سے لڑکے کا ہاتھ پکڑے ہوئے چل رہی تھی ۔’’ اگر اس قسم کی چیز جڑ پکڑ لے ۔۔۔ تو ہم لوگوں کو ہرانا آ سان نہیں ہو گا ۔ ہے نا؟‘‘
اور ایک گہری اور بلند فاتحانہ ہنسی کے ساتھ اس نے اپنے ننھے منے بوجھ کو نیلی فضا میں اچھال دیا اور چلایا :
’’ پارمازندہ باد!‘‘
رفتہ رفتہ مجمع چھٹ گیا اور لوگ بچوں کو گود میں لئے یا ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے ادھر ادھر چلے گئے اور چوک میں سوائے مسلے ہوئے پھولوں ، مٹھائیوں کے کاغذوں اور خوش باش گاڑی بانوں کے اور کچھ نہیں تھا۔ یا پھر ان سب کے اوپر اس آ دمی کا شاندا ر پیکر تھا جس نے نئی دنیا کی دریافت کی ۔
اور ایک نئی زندگی کی طرف جاتے ہوئے لوگوں کی پر مسرت چیخیں سڑکوں پر بڑے بڑے بگل باجوں کی آ واز کی طرح گونج رہی تھیں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے