میری سکونت ہے جس زمیں پر
یہاں تو لہجے ہیں برف جیسے
گلیشیئر سا سماج ہے یہ
میں روز سورج سے کھیلتا ہوں
میں روز آنکھیں نچوڑتا ہوں
جو خواب دیکھے تھے میں نے برسوں
اب اُن کی تعبیر مُنجمد ہے
سو اب ضرورت کے سارے بندھن
وہ جورتے ہیں میں توڑتا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے