’’ پری دروشم ‘‘ وہ ایسی ہے
شباہت پُھول جیسی ہے
بھڑکتی خواہشوں میں اب
سمندرکی روانی ہے
ہَوا نے بھیک مانگی ہے
فلک نے آگ برسی ہے
فصیلِ جاں شِکستہ ہے
غموں نے دُھوپ بھر لی ہے
رگڑ کھائی ہے پتھر سے
تبھی یہ چاند اُجلی ہے
نتیجے سے تُمہی واقف
کہانی تُم نے گھڑ لی ہے
چلو چلتے ہیں واپس اب
بچاری ماں بھی بُھوکی ہے
نہیں اُٹھتے اِسحاقؔ اب ہاتھ
دُعا جو اُس نے سُن لی ہے