مے کشو
تم کہانی کو بُنتے رہو
یم بہ یم
جُو بہُ جو
بن کے دریا محبت کا
بہتے رہو
جاوداں جاوداں
ہر گھڑی ، پل بہ پل
آرزو، جستجو یونہی چلتی رہے
جب تلک زندگانی یہ بڑھتی رہے
ہم نَفَسْ تم سبھی
دستِ قاتل کو یونہی جھٹکتے رہو
دائرہ ، دائرہ
جو وکیلِ دِیارِ زماں دیکھو تم
محتسب کی کماں کو نظر میں بھرو
سنگ زن واعظوں کے کچو کے سہو
ناصحوں کی یہ بے تدبیر اُلفت سہی
چارہ گر بھی نہ ہو دیکھنے کو کہیں
دستِ آتش نفس بھی تسلی نہ دے
اُسکے عارض کی لالی میں بھی فرق ہو
اُسکے تتلی سے نازک یہ مژگاں عنایت بھلے چھوڑ دیں
اُن کے لبوں کی مئے لالہ گوں ختم ہو
سارے انساں جہاں میں مقّید بھی ہوں
کہ جہاں بھی تو آخر قفس ہی تو ہے
مت ہو صبحِ یقیں ، صبحِ کاذِب سہی
مے کشو دم بہ دم
یہ تمہاری کتھا یونہی چلتی رہے
ساعتیں ہجر کی آج کم ہی نہیں
جام بَلّو ر ہاتھوں سے ملتا نہیں
ساز دستِ مُعّنی کا
دستِ عدو کی ہی زد میں سہی
اور تاریکی اپنا مقّدر سہی
پھر بھی تم مے کشو
ہاں کہانی کو بس یونہی بُنتے رہو

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے