سکینہ کا شوہر ویسا ہی تھا جیسے ان پڑھ گوار دیہاتی ہوتے ہیں.اپنے مرد ہونے کے زعم میں مبتلا اور بیوی کو چیونٹی سمجھنے والا .اسے اپنے آپ سے غرض تھی اور اپنی ضرورتوں سے.سارا دن کھیت کھلیان میں مصروف رہتا .جتا رہتا .گھر آتا تو تازی روٹی کی تلاش میں باورچی خانہ سونگھتا پھرتا.چٹکی بھر کی دیر میں ہی اسے آٹا پکنے کی خوشبو آتی تو جیسے سکون آجاتا.ٹھنڈ پڑ جاتی.کھانا ہمیشہ اُسے وقت پہ مل جاتا.لیکن اپنی بھوک مٹا کر اُسے کھانے میں کوئی نہ کوئی نقص نظر آجاتا
’’یہ کھانا بنایا ہے؟ اس سے اچھا چارہ تو میں بیلوں کو ڈال آوت ہوں.اتنی موت پڑے ہے تو منہ سے بول دے میں بھی باہر کہیں کھا مر آؤں‘‘۔
سکینہ کریم کی باتیں چپ چاپ سنتی شکر کرتی کہ اس نے آٹے کی بو جلدی ہی سونگھ لی ورنہ خوب سینکائی کرتا.وہ اکثر سوچتی کبھی یہ بھی لکڑیاں پھونک کر آگ جلائے اور اپنے رنگ کی تپش میں کھانا بنائے تو میں بھی دیکھوں اسے کھانا کیسے مزیدار نہیں لگتا.یہ سب باتیں دماغ کرتا لیکن اندر کہیں زور سے عورت کا دل بول اٹھتا:’’ وہ جو تیرے پیٹ کی آگ بھرنے کو سارا سارا دن کھیتوں میں گزار آتا ہے.آگ اگلتی زمین پہ بیج کاشت کر کے کتے کی طرح رکھوالی کرتا ہے.تو اس کی کڑوی کسیلی نہیں سن سکتی.پھر تو کیسی سکھی ہے پھر کیسی سانجھی ہے ‘‘۔اس کا دل بولنے نہ دیتا وہ چپ چاپ سن لیتی. اور سہ لیتی۔
رات ہوتے ہی کریم کی اچھی روح انگڑائی لے کر بیدار ہوتی اور وہ ایسے پچکارنے لگتا جیسے گھر میں رکھے پالتو جانور کو وقت ملنے پہ یا دل بہلانے کے لئے پچکارا جاتا ہے.ایسے میں سکینہ خود کو سب کچھ گردان لیتی.ایک سریا اس کی گردن میں اتر آتا اور تمکنت چال میں نمایاں ہو جاتی.پھر یوں ہوتا کہ صبح ہو جاتی.کریم واپس ہوش میں آتا اور سکینہ کے ہوش بھی ٹھکانے لے آتا.
اس کے خیال میں خستہ پراٹھے کی خستگی اور گرم چائے کے دھوئیں میں بھی اگر کوئی فرق آجائے تو وجہ موسم یا زبان کے ذائقے کی تبدیلی نہیں ہوسکتی.ہر ذرا سے فرق کی قصور وار عورت ہے.ذرا سے ٹھنڈے ناشتے کی پاداش میں ایسی گرم گرم چوٹیں سکینہ کو لگتیں کہ اس کا اپنا حلیہ بھی نہ پہچانا جاتا.کپڑوں میں کوئی کمی بیشی ہو جاتی یا بشر ہونے کے ناطے کریم کے ڈنگروں کے چارے کو وقت پہ نہ ڈال سکتی تو کریم اس کی لا پرواہی کی بو سونگھ لیتا.اور پھر رات کے اندھیرے میں کسی مہربان لمحے میں بتائی گئی کمزوری کا ہاتھ تھامے وہ اس کو خوب نچاتا.
کمزوری کیا تھی؟ بھلی چنگی گاؤں کی عورت تھی.دال روٹی کا مسئلہ نہ تھا.جسم مشقت کا عادی تھا.وہ کوہلو کے بیل کی طرح جتی رہ سکتی تھی اور زندگی کے کچھ سال اور بڑے شاد باد گزار لیتی.لیکن اس لمحے جب کریم مہربان تھا وہ بہک گئی.سرہانے کے سانپ کو سکھ دکھ کا ساتھی مان لیا.کہہ دیا کہ اب میری کمر میں سکت نہیں رہی.اٹھتی ہوں چلتی ہوں تو درد انگڑائیاں لیتا ہے.چار بچوں کو جنم دے کر ساری عمر ساتھ نبھانے والے مہرے لگتا ہے کھسک سے گئے ہیں.اگر ایک پیالی بھی روز دودھ مل جائے تو شاید آرام کی کوئی سبیل پیدا ہو .اس وقت کریم کے اندر کا انسان جاگ رہا تھا.اس نے بڑی ہی محبت سے کمر کو سہلایا.اور دودھ پینے کی اجازت دے دی.
صبح اٹھا تو یاد آیا میں تو مرد ہوں.کہاں کا درد اور کہاں کا دودھ.چائے کچھ ٹھنڈی لگی سکینہ کو ایک تھپڑ مارا لیکن دل کو سکون نہ ملا.گلاس پٹخا لیکن پاؤں میں خارش تھی ایسی خارش جو کسی فٹبال کے دلدادہ کو ہوتی ہے.اس نے سکینہ کی کمر پاؤں پہ فٹبال موافق رکھ لی.جی بھر کر کچوکے لگائے.ضربیں دی.وہ لڑھکتی رہی.جب قمیص جھاڑ کر باہر نکلنے لگا تو سکینہ میں اتنی بھی ہمت نظر نہ آئی کہ ایک نظر اس سانپ کو دیکھ لیتی.
وقت کا پہیہ چلتا رہا.سکینہ نے کریم سے کریم کے پاؤں سے انسیت اختیار کر لی.ماں کے گھر کا کوئی دیسی گھی تھا جو مرنے نہیں دیتا تھا.ورنہ سسرال کی سوکھی روٹی بھی مہنگی ہی پڑتی ہے اور اثر بھی نہیں کرتی.بچے اب بڑے ہوگئے تھے لیکن کہیں نہ کہیں وہ بھی سنپولے ہی تھے.کبھی پاؤں سے لپٹ جاتے کبھی سر اٹھا لیتے.لیکن وہ ناگن نہیں تھی ماں تھی۔ ہر حال میں اپنے پروں میں سمیٹ لیتی اور سلامتی کی دعائیں جھولی بھر بھر کر دیا کرتی.
ایسے ہی ایک دن کریم لاٹھی ٹیکتا اپنی زمینوں پہ گیا.برا وقت تھا ثابت ہو گیا.ٹریکٹر کے نیچے یوں وہ آیا جیسے گنے کو مشین میں ڈالا جاتا ہے.کریم کون سا لکڑ کا بنا ہوا تھا کہ اسے مشین تراش خراش لیتی اور نئی شکل میں قابلِ استعمال یا دیدہ زیب بنا دیتی.بے شک اکڑ بہت تھی لیکن وہ بھی گوشت پوشت کا انسان تھا.ٹانگیں یوں پیسی گئی کہ لگتا تھا کوئی دیہاتی گنڈیری چوستا ہو گا. بیٹوں کے خیال میں ماں کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہ تھی.وہ نمانی گھر میں سڑتی رہی مرتی رہی.ایک نظر اس سانپ کو دیکھنا چاہتی تھی کہ جو دنیا میں اس کی شناخت تھا.اس کے لاغر سے وجود کا لباس تھا .لیکن اب اس کا مقابلہ ایک نہیں چار مردوں سے تھا.اور اسکی کھسکے ہوئے مہرے لئے کمر، اس مقابلے کی طاقت ہی نہ رکھتی تھی۔
.کریم نے کوئی وقعت نہ دی تھی اب اس کے بیٹے بھی کوئی اہمیت دینے کے حامی نہ تھے.بس چل سو چل والا معاملہ تھا.بیوی تھی تو لیبل تھا حیثیت نہ تھی.ماں بنی تو بھی نام رہا اور رتبہ نہ ملا.
اسے یاد آتا وہ بار بار کہتا تھا تیرے جیسی بہت دیکھت ہوں.اسے میرے جیسی تو نظر آتی ہوگی.میرے نظر کو کاہے اس جیسا کوئی نہیں لاگت ہے.
بڑے دن گزرے اور بیٹے باپ کو پہیوں والی کرسی پہ بٹھا کر گھر لے آئے.ہر بچے کی خواہش تھی کہ فوراً سے کرسی خالی ہو اور وہ بھی جھولے لیں .بیٹوں نے باپ کو کمرے میں لے جا کر بستر پہ لٹانے کی سعی کی.وہ جونہی باپ کو ہاتھ لگاتے ایک چیخ وپکار شروع ہو جاتی.خاندان برادری والے اکھٹے تھے.ورنہ باپ کی اس غوغاں کی پرواہ کس جھلے نے کرنی تھی.اٹھاتے اور بستر پہ پٹخ دیتے.بعد میں چاہے وہ روتا مرتا رہتا.
سکینہ کچھ دیر کھڑی تماشہ دیکھتی رہی.پھر اچانک سے آگے بڑھی.کریم کے بائیں بازو کو اپنے دائیں بازو سے سہارا دیا.اور بیٹوں کو آنکھ سے عندیہ دیا کہ باپ کو اٹھا لیں.بیٹے حیرت سے بھرے بڑھاپے میں ماں کے اندر کی لیلی اور باپ کے اندر کا مجنوں دیکھ رہے تھے.لیکن زبانیں خاموش تھیں جیسے کچھ محسوس ہی نہ کیا ہو.سب کے جانے کے بعد سکینہ نے جب کریم کا مصنوعی پاؤں اپنی گود میں رکھا تو سکینہ کی آنکھوں سے کمر کا درد آنسو بن کر بہہ پڑا.کریم کو برسوں پہلے اپنی ٹوٹی بازو کا درد عین اسی لمحے محسوس ہوا.وہی درد جس کو کلف زدہ کپڑوں میں چھپا کر دنیا کے سامنے اکڑتا رہا اور رات کی تنہائی میں سکینہ سے لیپ کرواتا رہا تھا.