کیوں دیا تھا؟ بتا! میری ویرانیوں میں سہارا مجھے؟
میں اداسی کے ملبے تلے دفن تھی،کیوں نکالا مجھے؟

ایسی نازک تھی گھر کے پرندوں سے بھی خوف کھاتی تھی میں
یہ کہاں،کن درندروں کے جنگل میں پھینکا ہے تنہا مجھے؟

خواب ٹوٹے تھے اور کرچیاں اب بھی آنکھوں میں پیوست ہیں
اب یہ کس منہ سے پھر خواب کی انجمن نے پکارا مجھے

یار تھا تو کبھی، تیری نظمیں ہمیشہ سلامت رہیں
داغ دینے کو پھر یہ ردا چاہیے تو بتانا مجھے

بس یونہی رنج کا ابر شعروں کی بارش میں ڈھلتا گیا
"وارثان سخن!” کوئی تمغہ نہیں ہے کمانا مجھے

کوئی ایسا طریقہ بتا تیری آواز کو چوم لوں
اف یہ تیرا "فریحے! مری جان” کہہ کر بلانا مجھے

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے