لب پہ پابندی تو ہے ، احساس پر پہرا تو ہے
پھر بھی اہلِ دل کو احوالِ بشر کہنا تو ہے
خونِ اعدا سے نہ ہو، خونِ شہیداں ہی سے ہو
کچھ نہ کچھ اس دور میں رنگِ چمن نکھرا تو ہے
اپنی غیرت بیچ ڈالیں، اپنا مسلک چھوڑدیں
رہنماؤں میں بھی کچھ لوگوں کا یہ منشا تو ہے
ہے جنہیں سب سے زیادہ دعوئ حب الوطن
آج ان کی وجہ سے حُبِ وطن رسوا تو ہے
مرے دل میںآج کیا ہے، تو کہے تو میں بتادُوں
تری زُلف پھر سنواروں، تری مانگ پھر سجا دُوں
مجھے دیوتا بنا کر تری چاہتوں نے پُوجا
مرا پیار کہہ رہا ہے میں تجھے خدا بنادُوں
کوئی ڈھونڈنے بھی آئے تو ہمیں نہ ڈھونڈ پائے
تو مجھے کہیں چھپا دے، میں تجھے کہیں چھپا دُوں
مرے بازؤں میں آکر تیرا درد چین پائے
ترے گیسوؤں میں چُھپ کر میں جہاں کے غم بھلا دُوں