نا سمندر نا ہی کنارا ہوں
میں تو بالا ترِاشارا ہوں

تو فلک میں زمیں مگر پھر بھی
تم مری اور میں تمہارا ہوں

دلربا مصر لیے پھرتی ہے
میں ابوالہول کا نظارا ہوں

اب نظاروں کی بات کیا کہیے
تیرے انکار کا نظارا ہوں

مجھ سے خوابوں کے پھول پھوٹے ہیں
ان کی یادوں کا ایک دھارا ہوں

میں کوئی آسماں نہیں محسن
ایک جلتا ہوا ستارا ہوں

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے