سنگت اکیڈمی کی کوئٹہ کی ضلعی کمیٹی کا اجلاس ،کوئٹہ کے سیکریٹری جنرل پروفیسر جاوید اختر کی زیر صدارت27مئی کی شام مری لیب میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، سرور خان، جیئند خان جمالدینی، ڈاکٹر منیر رئیسانی، ڈاکٹر عطااللہ بزنجو، ساجد بزدار ، عابد میراور عابدہ رحمان نے شرکت کی۔
اجلاس کا طے شدہ ایجنڈا مندرجہ ذیل تھا:
1۔سنگت تعلیمی کمیٹی سے متعلق رپورٹ
2۔ سنگت بلوچی رسم الخط کمیٹی کی رپورٹ
3۔ دیگر تنظیموں سے روابط اور دوستی کے معاہدے سے متعلق پیش رفت
4۔سنگت نظریاتی نصاب
5۔قراردادیں
مرحلہ وار بحث کا خلاصہ:
1۔ عابد میر نے سنگت تعلیمی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی، جو سنگت اکیڈمی کے اراکین کے علاوہ دیگر ماہر تعلیم ، سیاسی اور انتظامی اہلکاروں کے ساتھ مل کرگذشتہ ماہ تشکیل دی گئی تھی۔ ایک ماہ کے دوران کمیٹی کے دو اجلاس منعقد ہوئے ،جس میں نئی تعلیمی پالیسی سے متعلق تجاویز اور مطالبات شامل کیے گئے۔
سنگت کے بعض اراکین نے اس کمیٹی کے طریقہ کار پر نکتہ اعتراض اٹھایا۔ اعتراض کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ سنگت کو بہ طور عوامی تھنک ٹینک کے خود بہ طور ادارہ عوامی پالیسیاں تشکیل دینی چاہئیں، اس کے لیے سیاسی یا انتظامی اہل کاروں کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
ایک زبردست و مدلل مباحثے کے بعد اس نکتے پر اتفاقِ رائے طے پایا کہ آئندہ اس معاملے میں احتیاط برتی جائے۔ سنگت کو حتمی طور پر اپنے اراکین اور دیگرماہرین کی مدد سے خود تعلیم، صحت، لیبر ، اور کلچر کے بارے میں متبادل عوامی پالیسی وغیرہ تشکیل دینی چاہیے۔
اس ضمن میں سنگت نے اپنی تعلیمی کمیٹی ازسر نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل نام طے پائے: ڈاکٹر شاہ محمد مری، جیئند خان جمالدینی، ساجد بزدار، وحید زہیر، عابد میر۔ نیز یہ طے پایا کہ یہ پانچ رکنی کمیٹی، اورماہرین کی مدد سے آئندہ چھ ماہ کے دوران پرائمری ایجوکیشن پالیسی تشکیل دے کر مرکزی کابینہ میں پیش کرے گی۔
2۔تین ماہ قبل قائم کردہ بلوچی رسم الخط کمیٹی کی تجاویز کو سنگت ایڈیٹوریل بورڈ نے پچھلے ماہ منظور کرلیا تھا۔
اب اسے کوئٹہ کی ضلعی کمیٹی میں پیش کیا گیا۔ اس پہ مفصل بحث ہوئی اور اس کو منظور کیاگیا۔
نیز طے یہ پایا کہ اب اسے سنگت کی جنرل باڈی میں پیش کر کے وہاں سے اس کی منظوری لی جائے گی، جس کے بعد یہ بلوچی رسم الخط سے متعلق سنگت اکیڈمی کا حتمی مسودہ ہو گا۔ بعدازاں اسے یونیورسٹیوں کے شعبہ بلوچی، نیز بلوچی سے متعلق کام کرنے والے، اداروں اور افراد کے سامنے بھی پیش کیا جائے گا، تاکہ وہ اس پر رائے دیں، تجاویز دیں، اضافے کریں، اور آئندہ برس تک اسے حتمی شکل دے دی جائے۔
3۔ دیگر تنظیموں سے روابط کے حوالے سے مرکزی سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ چند تنظیموں سے باقاعدہ معاہدہ ہو چکا ہے، بعض سے زبانی معاملات طے پا چکے ہیں، تحریری معاہدہ باقی ہے۔ ان میں آماچ ادبی دیوان مستونگ، راسکوہ ادبی دیوان نوشکی، جیوز اکیڈمی گوادر، بلوچستان اکیڈمی تربت، پشتو لیکوال ژوب اور بلوچستان ادبی فورم شامل ہیں۔
4۔سنگت نظریاتی نصاب کے ضمن میں 22کتب کے نام تجویز کیے گئے۔ طے یہ پایا کہ پہلے اس نصاب کی منظوری پوہ و زانت میں لی جائے گی۔اِن میں سے جو کتابیں دستیاب نہیں، وہ سنگت کی طرف سے چھاپی جائیں۔ اور پھر اس نصاب پر عمل در آمد کا طریقہ کار طے کیا جائے۔
5۔ آخر میں سنگت اکیڈمی کی جانب سے مندرجہ ذیل قرار دادیں منظور کی گئیں:
الف۔سنگت اکیڈمی بلوچستان میں ایک بار پھراغوا برائے تاوان کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے اسے حکومت کی ناکامی سے تعبیر کرتی ہے۔ نیز یہ مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے، اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
ب۔ سنگت اکیڈمی ینگ ڈاکٹرز کے جائز مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے ان سے یک جہتی کا اظہار کرتی ہے، اور حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ینگ ڈاکٹرز کے مطالبات کے پیش نظر ان سے جلد مذاکرات کر کے معاملے کو حل کیا جائے تاکہ مریضوں کو درپیش مشکلات کا خاتمہ ہو سکے۔
ج۔ سنگت اکیڈمی ملا محمد خان شیرانی والی نظریاتی کونسل کی جانب سے عورتوں کے حقوق کے خلاف تجاویز کو مسترد کرتی ہے۔