سنگت پوہ زانت کی ماہانہ تقریب یکم مئی 2016 کو 5 بجے شام پروفیشنل اکیڈمی میں منعقد ہوئی۔ اس میں مندرجہ ذیل نے شرکت کی۔ نورالحق بلوچ، خیر محمد سمالانڑیں جاوید اختر، ظہور بلوچ، زبیدہ جلال، عابدہ رحمن ،اسرار احمد، نورا حمد ، منصور احمد، مبین اللہ، وحید زہیر، امداد بلوچ، نصیر احمد، ڈاکٹر فقیر محمد بلوچ، فیصل درجان سراج بشیر، عزیز جمالی، ڈاکٹر شاہ محمد مری، وحید جان،جئیند جمالدینی، ساجد بزدار، داد شاہ، خالد میر، عابد میر ،آغا گل، سرور آغا، شبیر رخشانی اور ڈاکٹر عنبرین مینگل نے شرکت کی۔
اس تقریب کے پہلے سیشن میں زبیدہ جلال، عزیز جمالی اور دیگرایجوکیشنسٹوں سے ایجوکیشن کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک ایجوکیشن کمیٹی کی تشکیل پر بحث کی گئی اور ’’سنگت ایجوکیشن کمیٹی ‘‘کے نام سے ایک کمیٹی بنائی گئی،جو بلوچستان میں تعلیم کے گوناگوں مسائل، نصاب، طریق تدریس اور طریق امتحان وغیرہ پر اپنی ایک پالیسی مرتب کرے گی اور اس کے نفاذ کے لیے عملی و فکری جدوجہد کرے گی۔
سنگت پوہ زانت کے دوسرے سیشن میں یوم مئی کا حوالہ سرفہرست تھا۔ اس سلسلے میں عصمت خروٹی نے اپنا مضمون یوم مئی کے حوالے سے پڑھ کر سنایا، جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ اس کے بعد عابدہ رحمن نے کتاب ’’ سائیں کمال خان شیرانی‘‘پر اپنا تبصرہ بہ عنوان ’’ قافلے کی گھنٹی‘‘ پیش کیا اور کتاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ سامعین نے اس تبصرے کو بے حد سراہا۔
تقریب کے آخر میں ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنا مضمون بدعنوان ’’2016 کا یوم مئی ‘‘ پیش کیا، جس میں محنت کشوں کی تحریک کی شکستوں اور عالمی سرمایہ داری پر بھرپور بحث کی گئی اور اس ساری صورت حال کو بلوچستان میں مزدوروں کی موجودہ ناگفتہ حالت سے مربوط کیا۔ مضمون بہت سے نئے نکات کو اٹھا کر بحث پر مجبور کرتا ہے ۔ یہ مضمون سامعین نے بہت پسند کیا اور اسے سراہا ۔ اس کے بعد چائے کا دورچلایا گیا۔
تقریب کا اختتام شام سات بجے ہوا۔
*****
مورخہ 15مئی ساڑھے گیارہ بجے صبح سنگت اکیڈمی آف سائنسز اور بلوچستان سنڈے پارٹی کی طرف سے پوہ وزانت کی تقریب کا انعقاد ماما عبداللہ جان جمالدینی کے گھر میں ہوا۔ اس میں ماما عبداللہ جان جمالدینی کی 94ویں سالگرہ منائی گئی۔ اس تقریب کی صدارت قاضی عبدالحمید شہرزاد نے کی اور مہمانِ خصوصی صوفی عبدالخالق تھا ۔ نظامت کے فرائض عصمت خروٹی نے انجام دیے۔ تقریب میں سامعین کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔
تقریب کا آغاز ڈاکٹر منیر رئیسانڑیں کی والدہ محترمہ کی فاتحہ خوانی سے ہوا۔اس کے بعد ماما عبداللہ جان نے اپنی 94 ویں سالگرہ کا کیک کاٹا۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ماما عبداللہ جان کی شخصیت اور علمی و ادبی کارناموں پر بلوچی زبان میں ایک مضمون پیش کرکے اس محبوب شخصیت کو خراج عقیدت پیش کیا۔جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ مضمون کے بعد شاہ محمد شکیب نے بلوچی نظم میں ماما عبداللہ جان جمالدینی کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا نظم مندرجہ ذیل اشعار سے شروع ہوتی تھی:
بچار محفل عجب زیبا گلستاننت مروچی
کلام و شیں کنگ مارا گو دوستاننت مروچی۔
آزات جمالدینی نے بھی اپنی مختصر بلوچی نظم میں ماما عبداللہ جان جمالدینی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس کے بعد عبداللہ بلال نے اپنی اردو نظم پہ انگریزی عنوان ’’Sixth Sense‘‘پڑ ھ کر سنائی۔ اس تمام شعری سے سامعین بہت محفوظ ہوئے اور شعراء کو بھرپور داد دی۔
اس کے بعد رزاق صابر نے ماما عبداللہ جان جمالدینی کے علمی و ادبی کارہائے نمایاں کا ذکر کیا۔ عبدالواحد بندیک نے بھی ماما کی پہلو دار شخصیت پر روشنی ڈالی۔
اس کے بعد محفل کے مہمانِ خصوصی صوفی عبدالخالق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ میں بچپن سے ماما عبداللہ جان جمالدینی کی شاگردی میں رہا ہوں جو بلاشبہ میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ اس کی شخصیت اتنی عظیم ہے کہ میں اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہوں۔ آ ج کی پروقار تقریب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماما عبداللہ جان کا مشن جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا ۔ اس نے جو مشن لٹ خانہ کی علمی و ادبی اور سیاسی تحریک سے شروع کیا تھا وہ سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی شکل میں زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ و پائندہ رہے گا۔
آخر میں صدرِ مجلس قاضی عبدالحمید شہرزاد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں ماما عبداللہ جان جمالدینی کے خاندان کا فرد ہوں جس پر مجھے فخر ہے ۔ ماما عبداللہ جان جمالدینی نے جس جدوجہد کو شروع کیا تھا آج ایک بہت بڑا کاروان اس میں شامل ہے اور یہ بہت بڑا کاروان بلوچستان کی سرزمین کی خاطر جدوجہد میں مصروف ہے۔ چنانچہ ماما عبداللہ جان ایک فرد نہیں ہے بلکہ اپنی ذات یا شخصیت میں ادارہ ہے ۔ اس نے جو علمی و ادبی کام شروع کیا تھا، اس کے علمبرداروں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کا مشن ہمیشہ جاری اور زندہ رہے گا۔
ِ صدرِ مجلس کی تقریر کے بعدشرکاء کو کیک اور چائے سے نوازا گیا اور یہ تقریب2 بجے اختتام پذیر ہوئی۔