’سنگت‘ کو اول تا آخر بشمول اشتہارات چاٹ ڈالنے والے قارئین ہی جانتے ہیں کہ اس میں ذرا بھی غیر معیاری چیز آ جائے تو مطالعے کا منہ کیسا بدذائقہ ہو جاتا ہے۔ مئی 2016ء کا ’سنگت‘ مجموعی طور پر تو اس خامی سے پاک ہے، البتہ کچھ چھوٹی موٹی غلطیاں، اچھے بھلے روڈ پہ اچانک سامنے آ جانے والے سپیڈ بریکر کی طرح مطالعے کی رفتار پہ اثر ضرور ڈالتی ہیں۔
’شونگال‘ سے آغاز کرتے ہیں۔ مدیر کے روایتی اسلوب میں گندھے مختصر اور بامعنی فقروں والا یوم مئی کا اداریہ ایسے سخت ، طویل اور گہرے فقرے پہ ختم ہوتا ہے، کہ معنی اور مفہوم تک پہنچنے کے لیے کم از کم تین مرتبہ پڑھنا تو لازمی ہے۔ اس کے بعد محمد بشیر صنوبر کا ’عالمی یوم مئی کا پیغام‘ روایتی انداز میں لکھا گیا، روایتی مضمون ہے، جس میں یومِ مئی کا رٹارٹایا تاریخی پس منظر بنا کسی تحریری چاشنی کے نہایت روکھے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں بیان کی گئی ایک بات تو تاریخی طور پر تصدیق کی مرہون ہے۔ مصنف نے یورپی مزدوروں کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کام کے اوقاتِ کار اتنے طویل اور شدید تھے کہ وہ اپنے بچوں کو کھیلتا کودتا نہ دیکھ پاتے، انھیں اپنے بچوں کی رنگت کا بھی پتہ نہ چلتا تھا۔۔۔یہاں تک تو ٹھیک، اگلی بات کچھ زیادہ ہی زیبِ داستاں معلوم ہوتی ہے۔ بتاتے ہیں کہ،’’ان(مزدوروں) سے جب کوئی ساتھی پوچھتا کہ تمہارا بچہ کتنا بڑا ہے، تو وہ زمین کے اوپر ہاتھ بلند کر کے بتانے کی بجائے زمین پر ہی ہاتھ پھیلا کر اس کے قد کی لمبائی بتاتے تھے، کیوں کہ انھوں نے تو کبھی بھی اپنے بچوں کو کھڑا ہوتے نہ دیکھا تھا۔‘‘ مزدوروں پر اُس زمانے کا ظلم و جبر اپن جگہ،یہ بات عقل کے کچھ قریں نہیں لگتی، حوالے کی غیر موجودگی اس کی ’مشکوکیت‘ میں اضافہ کرتی ہے۔
اگلا مضمون لینن کے ایک مضمون کا ترجمہ ہے، جسے اسلم رحیل مرزا نے اردو میں منتقل کیا ہے۔ مضمون اور ترجمہ دونوں ثقیل ہیں۔ لیکن قابلِ مطالعہ!۔ عابد میر کا مضمون بروقت سہی، مگر ایڈیٹنگ کی نذر ہو جانے کے باعث اختتام کچھ عجب ہی عجلت میں لکھا معلوم ہوتا ہے، جیسے کہ بات ابھی ادھوری رہ گئی ہو۔شبیر رخشانی کا خاران کے ایک شاعر میر آدم حقانی پہ مضمون، تحقیقی مضمون کے تمام لوازمات سے پُر ہے۔ اس میں مصنف نے اپنی رائے ٹھونسنے اور تبصرہ کرنے کی بجائے نام ور مصنفین اور شاعر کے اعزا کی رائے شامل کر کے مضمون کو مستند بنا دیا ہے۔ ’پوہ و زانت‘ کے سیکشن میں یہ مضمون اس ماہ کا حاصلِ مطالعہ ہے۔ البتہ زبان کی بہت ساری اغلاط مصنف اور مدیر دونوں کی سنجیدگی کو مشکوک بنا رہی ہیں۔
اگلا مضمون بلوچی میں ہے۔ یہ ذوالفقار علی زلفی کے تخیلاتی مکالمے کا شہکار ہے۔ اس نے تخیل میں بلوچی کے کلاسیکل شاعر ملا فاضل سے محفل سجائی ہے۔ جس میں وہ ان سے شعر کے رموز اور بالخصوص عصر حاضر کی بلوچی شاعری پہ مکالمہ کر رہا ہے۔ کسی تاریخی شخصیت کی زبان سے عصر حاضر کا مکالمہ لکھنا دو دھاری تلوار پہ چلنا ہے۔ اس کے لیے اُس شخصیت کے تمام پہلوؤں سے آگاہی نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس کے مزاج کے مطابق گفت گو کو ہم آہنگ بنانا کارِ دارد ہے۔ زلفی نے اس فریضے کو بہ خوبی نبھایا ہے۔ اس کی نثر اس قدرسہل اور رواں ہے کہ پورے پیراگراف میں کہیں سانس لینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ کاش، وہ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مزید مربوط بنائے۔
اگلے مضمون پہ دو مصنفین کا نام درج ہے، جس کا اردو میں کم ہی رواج ہے۔یہ ڈاکٹر روتھ فاؤ کی حیات پر لکھا گیا سوانحی مضمون ہے۔ مصنفین میں ڈاکٹر مطہر ضیا اور صائمہ ارم کا نام لکھا گیا ہے۔ اوپر کھڑکی میں ایک سرخی’بلوچستان کی محسنہ‘ کے عنوان سے جمائی گئی ہے،جس کا مضمون کے متن میں کہیں تذکرہ نہیں۔ جب کہ مضمون کے اختتام سے واضح ہے کہ یہ ابھی جاری ہے، مگر ایڈیٹر نے اس کا تذکرہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔جس سے عام قاری کو گمان گزرتا ہے کہ یا تومصنفین نے اسے جلد بازی میں ختم کر ڈالا یا باقی ماندہ حصہ ایڈیٹر کی قینچی کی نذر ہو گیا۔
اگلا مضمون بھی سوانحی ہے۔ڈاکٹر خدائیداد صاحبی پہ پشین سے پروفیسر منیر احمد نے لکھا ہے۔مجموعی طور پر مضمون مناسب اور متوازن ہے۔ اس میں پروف کی دو، چار غلطیاں ہیں۔ایک فقرہ شاید زورِ قلم میں سرزد ہوا ہے کہ،’’فوجی ملازمت کے دنوں میں انھوں نے برصغیر پورے کا پورا دیکھ لیا تھا‘‘، احتیاطاً ہی سہی، اس میں ’تقریباً ‘ کا لفظ ڈال دینا چاہیے تھا۔ مضمون کی ترتیب باقی رسالے سے مختلف ہے۔ اسے کالموں میں تقسیم کرنے کی بجائے پورے صفحے پر پھیلا دیا گیا ہے، یہاں تو ٹھیک لیکن دوسرے صفحے پر تحریر کے عین بیچ میں باکس میں ایک غزل ڈال دی گئی ہے، جس سے مطالعے کی روانی شدید متاثر ہوتی ہے۔
اگلے دو صفحات پر ایک مقالے کی صورت سرکاری اشتہار چھاپا گیا ہے۔ اس کی سرخی کچھ یوں ہے : ’’دن، اہم کامیابیاں اور اقدامات، 100وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کے پہلے‘‘۔ بہت کم قارئین اس متن کو درست کرنے یا سمجھنے کے قابل ہوں گے، جو یوں ہے:’’ وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کی حکومت کے پہلے 100دن، اہم کامیابیاں اور اقدامات۔‘‘۔۔۔خیر، اس سے ’سنگت‘ کی سرکاری اشتہارات کی اشاعت میں دلچسپی کا اندازہ تو ہوتا ہے۔
’’بلوچستان، زندگی کی کوکھ‘‘ ، شامہ محمد مری کا مضمون ہے، جو ان کی کسی آئندہ کتاب کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ ڈیڑھ صفحے کے اس مضمون میں بھی دو چارغلطیاں رہ ہی گئی ہیں۔ اگلے دو صفحات پر سنگت اکیڈمی کی کتابوں کی فہرست درج کی گئی ہے۔ (حالاں کہ ان میں سے کئی کتابیں مختلف پبلشرز کے ہاں سے چھپی ہوئی ہیں)۔
گوادر سے ذاکر عبدالرحمان نے ’بدقسمتی والی موت‘ کے عنوان سے گارشیا مارکیز پہ مختصر مضمون لکھا ہے، جو دراصل مارکیز کے، موت سے قبل لکھے گئے مضمون نما پیغام پہ مشتمل ہے۔ مارکیز کا یہ پیغام اس کی تحریروں کی طرح شان دار اور دیر تک اپنے حصار میں رکھنے جیسا ہے۔ البتہ اس میں ایک بات حوالہ طلب ہے۔ لکھا ہے کہ ، ’’مارکیز ہمیشہ کہتا تھا کہ انسانیت کا مستقبل سوشلزم سے وابستہ ہے،‘‘۔۔۔ایسا اس نے کب ‘کہاں کہا ہے، اس کا کوئی حوالہ ہو تو مارکیز کے پڑھنے والوں کے لیے اطمینانِ قلب کا باعث ہو سکتا ہے۔پروف کی غلطیوں والے اسپیڈ بریکر یہاں بھی موجود ہیں۔
غیر متوقع طور پر اگلے تین صفحات شاعری کے لیے مختص کیے گئے ہیں، اس پہ ہم آخر میں بات کریں گے۔
’پولیٹیکل اکانومی‘ کا مضمون پوہیں مڑد نامی مصنف کے عنوان سے چھپا ہے۔ لیکن موضوع اور اسلوب اصل مصنف کے نام کی صاف چغلی کھا رہے ہیں۔ اس کے آخر میں اینگلز کی کتاب سے ایک بیان شامل کیا گیا ہے، لیکن حوالہ نہیں دیا گیا۔
اس کے بعد حال حوال کے سیکشن میں رفیق شوہاز کی مختصر رپورٹ ہے۔ یہ براہوی ناول’ماہ گل‘ کی نوشکی میں ہونے والی تقریبِ رونمائی کے احوال پر مبنی ہے۔ ٹھیک ہے۔
آگے ’سنگت ٹرانسلیشن‘ کا سلسلہ ہے۔ غم خوار حیات نے رسول حمزہ توف کی کتاب ’میرا داغستان‘ کا براہوی ترجمہ شروع کیا ہوا ہے، یہ اس کی دوسری قسط ہے۔ ’مروارد‘ کے عنوان سے ڈاکٹر علی دوست کا جان سٹنبک کا بلوچی ترجمہ دیا گیا ہے،اس کا کوئی تعارف نہیں، بہ ظاہر لگتا ہے کہ کسی ناول کا ترجمہ ہے۔
عنوان تو اس سلسلے کا ہے،’کتاب پچار‘ لیکن مضمون ایک نظم کے تنقیدی جائزے پر دیا گیا ہے۔ ارشد معراج کی ایک نظم ’ماتھے سے چمکی سفید چمگادڑ‘ پہ بلال اسود نے تبصرہ کیا ہے۔ جیسی اعلیٰ نظم ہے، ویسا ہی سادہ اور خوب صورت تبصرہ ہے۔ مختصراً ، نظم اور تبصرہ دونوں سنجیدہ مطالعے کے متقاضی ہیں۔
اسی سلسلے کا اگلا مضمون عابدہ رحما ن کا ہے، جو انھوں نے شاہ محمد مری کی کتاب’سائیں کمال خان‘ شیرانی پہ لکھا ہے۔ ’قافلے کی گھنٹی‘ جیسے خوب صورت عنوان سے مزین مضمون میں دو چار بہت ہی اچھے تخلیقی فقرے ہیں۔ لیکن کہیں کہیں زبان کی کچھ اغلاط بھی۔ جیسے ایک ہی پیراگیراف میں سائیں کے لیے صیغہ واحد اور اگلی ہی لائن میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔چار لائنوں کے ایک فقرے میں کم از کم سات مرتبہ ’اور‘ استعمال ہوا ہے۔ مصنفہ کا ایک بیان توجہ طلب ہے۔ کہتی ہیں،’’پشتو صرف ایک زبان نہیں، یہ ایک فلسفہ ہے، پشتو نام ہے ایک غیرت کا اور اس لحاظ سے پشتو کسی بلوچ میں بھی ہو سکتی ہے، پٹھان میں بھی اور کسی پنجابی میں بھی۔‘‘ اس پہ ایک تفصیلی مکالمہ ہو سکتا ہے، پشتو والے کوئی دوست ہی آغاز کریں تو بہتر ہو گا۔
آگے پھر سے ’حال حوال‘ کا سلسلہ ہے۔ سمجھ نہیں آیا کہ اس سلسلے کا ایک مضمون چھ صفحے پہلے ڈالنے کا کیا جواز تھا؟۔۔۔یہاں دو مختصر رپورٹس شامل ہیں۔ سنگت اکیڈمی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس، اور سنگت ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ کا حال۔ دونوں معلومات افزا ہیں۔
قصہ، یعنی افسانے کے حصے میں پہلی کہانی میکسم گورکی کی ہے، جسے ’عجیب الخلقت مخلوق‘ کے عنوان سے صابرہ زیدی نے ترجمہ کیا ہے۔ کہانی کا خیال نہایت اعلیٰ مگر ترجمہ کچھ کم زور سا معلوم ہوتا ہے۔عابدہ رحمان کا افسانہ ’پیٹ میں کھنکتی بھوک‘ عنوان سے ہی موضوع کا پتہ دیتا ہے۔ مختصر مگر بامعنی کہانی ہے۔ Helloween Mosqueکے عنوان سے مبشر مہدی کی ایک انگریزی کہانی شامل کی گئی ہے۔ کہانی کے موضوع اور ’سنگت‘ کے مزاج کے پیش نظر یقین سے کہا جا سکتا ہے اگر یہی کہانی اردو میں ہوتی تو یقیناًایڈیٹر کے آہنی مزاج کی نذر ہو جاتی۔آدم شیر نے ’خود فریبی‘ کے عنوان سے مختصر کہانی لکھی ہے۔ کیوں لکھی ہے؟ یہ مصنف سے ہی پوچھنا چاہیے، قاری کے پلے تو کچھ نہیں پڑا۔ آخری دونوں کہانیاں سندھی ادب سے ترجمہ ہوئی ہیں۔ انور کاکا کی کہانی ’گلے میں اٹکا ہوا سورج‘ کے عنوان سے ننگر چنا نے کیا ہے۔ عنوان علامتی مگر کہانی سادہ بیانیے میں ہے۔ کسی خاص تاثر کے بنا بھی پڑھے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ آخری کہانی رشید بھٹی کی ہے جسے سندھی سے جہانگیر عباسی نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے مکمل ، سندھ کے دیہی مزاج کے ایک خوب صورت پہلو کو پیش کرتی کامیاب کہانی ہے۔
اب آخر میں تذکرہ شاعری کا۔ اَدھر اُدھر بکھرے اور کہیں دو چار صفحات میں یک جا ، کل ملا کے بیس شاعر اس پرچے میں شامل ہیں۔ اکثر شاعری تو ایسی ہے کہ بس ’شاعری‘ ہے۔ شاعروں نے بھیج دی، ایڈیٹر نے چھاپ دی، ہم نے پڑھ لی۔۔۔اور بس۔ کچھ نظمیں مگر بہت ہی دیرپا اثر چھوڑنے والی ہیں۔ان میں سب سے اہم نظم بلال اسود کی Sixth Senseہے۔ کیا خوب صورت نظم ہے، بارہا پڑھے جانے کے قابل، سنے اورسنائے جانے کے قابل۔ اس کی ایک غزل بھی ساتھ ہی چھپی ہے۔ اس کے اشعار بھی بار بار دہرائے جانے کا تقاضا کرتے ہیں۔