سورج دوپہر کے نیلے آ سمان میں پگھلا جا رہا ہے اور اپنی گرم ، قوس و قزح کے رنگوں کی شعاعیں زمین پر اور سمندر پر بکھیر رہا ہے۔ نیم خوابیدہ سمندر میں سے رنگ بدلتے ہوئے بلور کا سا کہرا اٹھ رہا ہے ۔ نیلگوں پانی فولاد کی مانند چمک رہا ہے اور نمکین پانی کی تیز بو بہہ کر ساحل تک آ رہی ہے۔
موجیں مزے مزے سے بھورے پتھروں پر چھینٹیں اڑا رہی ہیں ، ان کے اس پار تک پہنچی جا رہی ہیں اور سر گوشیاں کرتے ہوئے سنگ ریزوں سے اٹکھیلیاں کر رہی ہیں ۔ یہ چھوٹی چھوٹی لہریں ہیں ۔ بلور کی طرح شفاف اور جھاگوں سے نا آ شنا ۔
ایک ارغوانی رنگ کے دھواں دھواں کہرے نے پہاڑ کو ڈھانپ رکھا ہے، زیتون کے مٹیالے سے پتے دھوپ میں پرانی چاندی کی طرح دکھائی دے رہے ہیں ، پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر بنے ہوئے باغوں کی مخملی ہریالی لیموؤں اور سنتروں کی سنہری جوت سے دمک اٹھی ہے ، انار کے گلنار رنگ شگوفے اپنا تابندہ تبسم بکھیر رہے ہیں اور ہر جگہ پھول ہی پھول ہیں ۔
سورج واقعی اس دھرتی سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
پتھریلے ساحل پر دو مچھیرے بیٹھے ہیں ۔ ان میں سے ایک بوڑھا آ دمی ہے ، وہ چٹائی کی ٹوپی اوڑھے ہوئے ہے، اس کا چہرہ گول گول ہے اور اس کے رخساروں اور ٹھوڑی پر ایک خشخشی سی سفید داڑھی ہے، اس کی �آ نکھیں ،مٹاپے کی وجہ سے آ دھی چھپی ہوئی ہیں ، اور اس کی ناک لال ،اور ہاتھ سورج میں تمیائے ہوئے ہیں ۔ وہ اپنی نازک ، لچک دار بنسی کو، جو سمندر میں خاصی دور تک گئی ہے، پکڑے ہوئے ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور اپنی بالوں دار ٹانگوں کو پانی کے اندر جھلا رہا ہے اور سبزی مائل موجیں لپک لپک کر اُس کے پاؤں کو چاٹ رہی ہیں اور اس کے سانولے انگوٹھوں سے پانی کے بڑے بڑے ، چمکیلے قطرے ٹپک ٹپک کر سمندر میں گر رہے ہیں ۔
بوڑھے کے پیچھے ایک سانولے رنگ کا، سیاہ چشم نوجوان آ دمی ایک پتھر پر کہنیاں ٹکائے کھڑا ہے۔ وہ دراز قد اور دبلا پتلا ہے، وہ سر پر ایک لال ٹوپی اوڑھے ہے، ایک سفید سوئیٹر اس کے مضبوط سینے پر کسا ہوا ہے اور اس کی نیلی پتلون گھٹنوں تک چڑ ھی ہوئی ہے ۔ وہ سیدھے ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہے ا ور کچھ سوچتے ہوئے سمندر کے اس حصے کو تکتا ہے جہاں مچھلیاں پکڑنے والی کشتیوں کی سیاہ دھاریاں آ ہستہ آ ہستہ ڈول رہی ہیں ۔ اور ان کے پیچھے دور فاصلے پر ایک گرمی میں پگھلتے ہوئے نرم نرم بادل کی طرح سفید اور بے حس و حرکت بادبان بہت خفیف سا دکھائی دے رہا ہے۔
’’کیا وہ دولت مند ہے؟‘‘۔ بوڑھا اپنی بنسی کو کھینچتے ہوئے ایک بیٹھی ہوئی سی آ واز میں پوچھتا ہے۔
’’ہاں میں تو یہی سمجھتا ہوں ‘‘۔ نوجوان دھیرے سے جواب دیتا ہے۔ ’’ وہ بُندے اور ایک بڑا سا نیلام پتھر جڑا ہوا بروچ اور نہ جانے اور کیا کیا چیزیں پہنے ہوئے تھی اور اس نے ایک گھڑی لگا رکھی تھی ۔ میرا خیال ہے وہ امریکی ہے۔‘‘
’’اور کیا وہ خوبصورت ہے ؟‘‘۔
’’ہاں ہاں ! یہ سچ ہے کہ وہ دبلی بہت ہے لیکن اس کی آ نکھیں پھولوں کی طرح ہیں اور ایک ننھا منا ادھ کھلا دھن۔۔‘‘
’’ایسا دھن ایک ایسی عورت کا ہوتا ہے جو ایمان دار ہو ،اور زندگی میں صرف ایک بار محبت کرے۔‘‘
’’میں بھی یہی سمجھتا ہوں ۔‘‘
بوڑھے نے اپنی بنسی کو ایک جھٹکا دے کر کھینچا ، آ نکھیں سکیڑکر خالی کانٹے کو دیکھا ، بڑ بڑا یااور پھر ایک دبی ہوئی ہنسی ہنس کر بولا:
’’مچھلیاں ہم سے زیادہ بے وقوف نہیں ہیں ۔‘‘
’’دوپہر کو بھلا کون مچھلی پکڑتا ہوگا؟‘‘ ۔نوجوان نے پھسکڑا ما ر کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں ‘‘ ۔ بوڑھے نے جواب دیا اور اپنے کانٹے پر چارا لگایا ۔ بنسی کو سمندر میں خوب دور پھینکتے ہوئے اس نے پوچھا:
’’تم کہتے ہو کہ تم صبح تک کشتی کھیتے رہے ؟‘‘
’’ہاں ۔ جب ہم کنارے پر آ ئے تو سورج نکلنے لگا تھا ‘‘۔ نوجوان شخص نے ایک ٹھنڈی اور گہری سانس بھر کر جواب دیا۔
’’بیس لیرے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتی تھی ۔‘‘
’’تم دونوں نے کیا باتیں کیں ؟‘‘
نوجوان نے غمگین اور دل گیر ہو کر سر جھکا لیا ۔
’’وہ فقط اطالوی زبان کے مشکل سے دس لفظ جانتی ہے، سو ہم خاموش رہے۔۔۔‘‘
’’سچی محبت ‘‘۔ بوڑھے نے اس کی طرف مڑ کر کہا، اس کی کشادہ مسکراہٹ کی وجہ سے اس کے سارے سفید دانت نظر آ رہے تھے ۔ ’’بجلی کی طرح دل پر آ ن گرتی ہے اور بجلی ہی کی طرح خاموش بھی ہوتی ہے، تم اتنا توجانتے ہی ہو گے؟‘‘
اس نوجوان نے ایک بڑا پتھر اٹھا لیا اور وہ اسے سمندر میں پھینکنے ہی والا تھا کہ اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور اپنے کندھے کے اوپر اُسے پیچھے کی طرف پھینک دیا۔
’’بعض دفعہ‘‘ اس نے کہا ’’ آ دمی کی بالکل سمجھ میں نہیں آ تا کہ لوگوں کو اتنی بہت سی زبانوں کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
’’کہا جاتا ہے کہ ایک دن وہ بھی آ ئے گا جب ایسا نہیں ہوگا ‘‘۔ بوڑھے نے کچھ توقف کے بعد کہا۔
سمندر کی نیلگوں سطح کے آ خری کنارے پر ، دودھیا کہرے کے درمیان ایک بادل کی پر چھائیں کی مانند سفید جہاز بالکل بے آ واز طریقے پر ہلکے ہلکے جل رہا تھا۔
‘‘ سسلی جا رہا ہے۔‘‘ بوڑھے نے اس کی طرف سر کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس نے کہیں سے ایک لمبا کھر درا ، سیاہ سگار برآ مد کیا، اس کو دو ٹکڑے کر ڈالا اور اپنے کندھے پر سے ہاتھ بڑھا کر ایک حصہ نوجوان شخص کو دیتے ہوئے اس سے پوچھا:
’’جب تم اس کے ساتھ بیٹھے تھے تو کیا سوچ رہے تھے؟‘‘۔
’’آ دمی ہمیشہ خوشی کے بارے میں سوچتا ہے۔۔۔‘‘
’’اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ احمق ہی رہتا ہے۔‘‘ بوڑھے نے اظہار خیال کیا۔
انہوں نے سگار جلا لیے ۔ دھوئیں کے نیلگوں چکر پتھروں کے اوپر سے بل کھاتے ہوئے اٹھے اور ساکت و ساکن فضا میں تحلیل ہو گئے جو زرخیز دھرتی اور ملائم رو پانی کی خوشگوار خوشبو سے بھر پور تھی۔
’’میں نے اُسے گیت سنایا اور وہ مسکرائی۔۔۔‘‘
’’اور پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ تم جانتے ہی ہو کہ میں اچھا گویا نہیں ہوں۔‘‘
’’سو تو ہے۔‘‘‘
’’سو میں نے چیو رکھ دئے اور اس کی صورت دیکھتارہا ۔‘‘
’’سچ مچ؟‘‘۔
’’میں اُسے تکتا رہا اور دل ہی دل میں سوچتا رہا‘‘ میں نوجوان اور مضبوط ، موجود ہوں اور تم اکتائی ہوئی ہو۔ مجھ سے محبت کرو اور مجھے ایک اچھی زندگی گزارنے دو!۔۔۔‘‘
’’کیا وہ اکتائی ہوئی ہے؟ ‘‘۔
’’اگر آ دمی غریب نہیں ہے اور خوش بھی ہے تو بھلا کیوں وہ دیش بدیش مارا مارا پھرے گا؟‘‘۔
’’خوب کہا!‘‘
’’میں کنواری مریم کی قسم کھا کر تم سے دعوی کرتا ہوں ، میں نے دل ہی د ل میں کہا ، کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کروں گا اور ہمارے ارد گرد ہر شخص خوش ہوگا۔۔۔‘‘‘
’’اوھو!‘‘ ۔بوڑھا چلایا اور اپنا بڑا سا سر پیچھے کی طرف ڈال کر خوب دل کھو ل کر ہنسا۔
’’ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ وفا دار رہوں گا ۔۔۔،‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘
’’یا ، میں نے سوچا: ہم دونوں کچھ دن ساتھ رہیں گے اور میں تم سے جتنی تم چاہو گی اسی قدر محبت کروں گا اور پھر تم مجھے یک کشتی اور مچھلی کے شکار کا سامان اور ایک زمین کا ٹکڑا خریدنے بھر کے پیسے دے دینا اور میں اپنے وطن لوٹ آ ؤں گا اور زندگی بھر تمہارا احسان مانوں گا اور تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘
’’یہ توبے وقوفی کی بات نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’پھر صبح ہوتے میں نے سوچا کہ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ، مجھے روپئے پیسے کی تمنا نہیں ، مجھے تو بس خود وہ چاہیے ، چاہے صرف ایک ہی رات کے لئے کیوں نہ ہو ۔‘‘
’’یہ تو اور بھی آ سان ہے۔‘‘
’’فقط ایک رات کے لئے !‘‘
’’اوھو!‘‘ بوڑھے نے کہا۔
’’ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے ، چچا پیترو ، کہ تھوڑی سی خوشی ہمیشہ زیادہ سچی اور پر خلوص ہوتی ہے۔۔۔‘‘
بوڑھا کچھ نہیں بولا ۔ اس نے اپنے موٹے ہونٹ لٹکالیے اور سبز پانی کو دیکھنے لگا اور نوجوان نے دھیرے دھیرے ایک غم آ گیں دھن چھیڑ دی:
’’اے میرے سورج ۔۔۔‘‘
’’ہاں، ہاں ‘‘ ۔یکبارگی بوڑھا سر ہلا ہلا کر کہنے لگا ۔’’ تھوڑی سی خوشی زیادہ سچی اور پر خلوص ہوتی ہے لیکن بہت سی خوشی اس سے بھی زیادہ اچھی چیز ہے ۔ غریب آ دمی زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں ، دولت مند زیادہ طاقت ور ہوتے ہیں ۔ اور ہر چیز ایسا ہی ہوتا ہے!‘‘
موجیں اپنا ابد ی راگ گنگناتی رہیں ۔ دھوئیں کے نیلگوں چکر لوگوں کے سروں کے اوپر ہالوں کی طرح تیرتے رہے۔ نوجوان اپنے منہ کے ایک کونے میں سگار دبائے ، کوئی دھن گنگناتا ہوا اٹھا ۔ وہ ایک بھورے سے پتھر پر اپنے شانے کو ٹکا کر کھڑا ہو گیا، اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ لیے اور آ نکھوں میں خواب و خیال کی ایک نگری بسائے ، سمندر کو تکنے لگا۔
اور بوڑھا بے ہلے جلے سر نیچے ڈالے بیٹھا رہا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اونگھ گیا ہے۔
پہاڑوں پر ارغوانی سائے اور زیادہ گہرے اور زیادہ نرم اور ملائم ہو گئے ۔
’’اے میرے سورج!‘‘ نوجوان گا رہا تھا۔۔۔
سورج طلوع ہوا
اور بھی زیادہ خوبصورت ،
تجھ سے بھی زیادہ خوبصورت ،
اے سورج
میرے سینے میں فروزاں ہو!۔
سبزی مائل ، مسرور اور چنچل لہریں اٹکھیلیاں کرتی رہیں۔