میں لکھنا چاہتاہوں ، کوئی ایسا واقعہ ، کوئی ایسی کہانی کہ جس سے اندر کا غبار چھٹ جائے ۔یہ کون سا موسم ہے کہ جس سے انسان کا اندرجکڑاجاتا ہے۔ بہت پرانے مکانوں کے دروازو ں میں لگی دیمک ذرہ ذرہ کرکے ساری لکڑی کھاجاتی ہے۔ ایسے ہی اداسی انسان کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہے۔ میں لکھناچاہتا ہو ں کوئی ایسی کہانی کہ جس سے اندر کا طوفان تھم جائے۔ یہ رات یہ کالی سیاہ رات کہ جس میں چاند کا دور دور تک کوئی شائبہ بھی نہیں۔ یہ رات جو اپنے اندر بے شمار قصے چھپا کے بیٹھی ہے۔ اس رات کی چادر کو خالی مت سمجھو کہ اس میں بے شمار کہانیاں ہیں ایسے ہی جیسے ماسی تاجو کے پاس خزانہ تھا۔۔۔
اوہ میں پھرماسی تاجو کا قصہ لے بیٹھا ، وہ ماسی تاجو کہ جس کے پاس خزانہ تھا ۔یہ میں نہیں کہتا ،سارا گاو ں کہتا تھاکہ ماسی کے گھر میں جو تین صندوق ہیں ان میں ایک میں خزانہ ہے ۔
لوگ کہتے تھے کہ جب تقسیم ہوئی تو مہندرسنگھ یہ خزانے کا صندوق ماسی کے مرحوم شوہر کو دے گیا تھا جو کہ اب بھی ماسی نے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔
ماسی کا شوہر قصاب تھا ۔وہ فوت ہوا تو ماسی کبھی کسی کے گھر سے کھانا کھا لیتی کبھی کسی گھر سے۔ لوگ کہتے ’’ بڑھیا نے خزانہ چھپا رکھا ہے لیکن مجال ہے کہ اس کا ستعمال کرے۔ کوئی پوچھے اتنی دولت ساتھ لے کر جاو گی ، بال بچے ہیں نہیں جو ، اُن کے لیے بچا کے رکھا ہوا ہے جو کھانا ہے خود ہی کھانا ہے لیکن نہیں ‘‘
اور گاوں کی عورتیں یہ باتیں کرکے کانوں کو ہاتھ لگاتیں اور کہتیں کہ لالچ کتنی بری بلاہے ۔ کئی عورتیں ماسی سے باتوں باتوں میں پوچھ بھی لیتیں کہ ماسی سنا ہے تمہارے پاس خزانہ ہے۔ ماسی یہ سن کر پوپلی ہنسی ہنستی اور کہتیں۔ مجھ بھوکی ننگی کے پاس روٹی کھانے کو پیسے نہیں تم لوگ پتہ نہیں کس خزانے کا پوچھتی ہو‘‘
اور گاوں کی عورتیں کہتیں کہ بڑھیا کتنی چالاک ہے خزانے کی خبر کسے ہونے دیتی ہے۔
یہ رات گزرتی کیوں نہیں ، کیا وقت ٹھہر گیا ہے ، ٹھہر گیا ہوتا تو یہ بال سفید کیوں ہوتے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس لڑکے نے بچپن سے ماسی تاجوکے خزانے کی کہانیاں سُن رکھی تھیں جو ماسی کو ایک چالاک بڑھیا سمجھتا تھا ، جب وہ جوان ہوا تو اس کے دل میں خزانہ حاصل کی خواہش جاگی ۔سو ایک رات وہ ماسی کے گھر کی دیوار پھلانگ گیا ۔ ماسی کے گھر کا ایک ہی کمرہ تھا وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے کمرے کی کھڑکی کے پاس آیا اندر لالٹین جل رہی تھی اور چارپائی پر ماسی سو رہی تھی ، اور ایک کونے پر تین صندوق پڑے تھے وہ بغیر چاپ کے کمرے میں داخل ہوا اور پہلے صندوق کاڈھکن کھولا ، صندوق ناجانے کس زمانے کا تھا کہ لرزاٹھا اور ماسی کوشکایت کردی ، ماسی کی آنکھ کھل گئی ، کون ہے کون ہے
لڑکاپہلے توڈرا پھر اُس نے سوچا یہ بڑھیا اُس کا کیا بگاڑ لے گی۔ سو اُس نے کہا ماسی میں خزانہ لینے آیا ہوں چُپ کرکے پڑی رہ تم نے اب اس خزانے کا کرنا کیا ہے یہ اچھا نہیں کہ کسی کے کام آجائے
’’ نہ نہ پُتر ، صندوق چھوڑ دے ‘‘
لڑکے نے پہلے صندوق کی تلاشی لی کچھ نہ ملا دوسرا کھولا کچھ نہ ملا دونوں صندوقوں کو اٹھاکر ایک کونے میں رکھا ہی تھا کہ ماسی تیسرے صندوق کے ساتھ چمٹ گئیں :
’’ نہ نہ پتر اس بکسے نوں رین دے‘‘
’’ نہ نہ پتر اس بکسے نوں رین دے‘‘
لڑکے کا شک اب یقین میں بدل چکاتھا خزانہ اِسی صند وق میں ہوگا ،
’’ ماسی ہٹ جا کہہ رہا ہوں آج خزانہ لے کر ہی جاوں گا‘‘
’’ دیکھ پتر تُو یہ لے جائے گا تو میرے پلے کیا رہے گا ، میں پہلے ہی بھوکی ننگی در در روٹی مانگ کر کھاتی ہوں اب تُو مجھے اور فقیر کرناچاہتا ہے ؟‘‘
لڑکے نے ماسی کا ہاتھ پکڑکے ایک طرف دھکیلا اور صندوق کا ڈھکن کھول کر بیٹری جلائی ۔۔۔۔
’’ اندر کفن تھا‘‘