مِری پیاری مِیرُو
نہیں جانتی مَیں،
کہ ’’ مالک‘‘ ہمارے
ہَے قدموں میں جِن کے جہاں کی اَمیری
کہاں رکھ کے بُھولے عمل کی نفیری
غِذا بھی ہے ان کی،
خُدا بھی ہے اُن کا،
ہمارا مُقدّر:
یہی اِک اَسیری
مِری سوہنی! آنکھ کھولو،
ذرا لَب ہلاؤ،
چمکتے ، چمکتے جہاں کو بتاؤ
کبھی ایک قطرہ ہی تُم کو مِلا ہو
مِرے سُوکھتے جِسم کے سیلِ خُوں سے،
کبھی سو سکی ہو سکُوں سے؟
چلو۔۔۔۔۔۔ آؤ تُم کو لِٹا دُوں
یہیں ریت کی ایک ننھی لحد میں،
ہمارے لیے اب ہے یہ زندگانی
یہی کڑوا پانی

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے