شام کا دھند لگا ۔دھواں دھواں سی کلیاں، کوہ مہردار سے کجلائے ہوئے چاند کے نمودار ہونے کا منظر۔ ساتھ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی نوحہ گری اور ٹیپ سے برآمد ہونے والی آواز جو مرثیے کا لبادہ اوڑھے مجھے عجیب اُداسی کے کنویں میں اُتار رہے تھے ۔ بس پھر کیا تھا کہ یکبارگی نظر دیوار پر لکھی ہوئی تحریر پر پڑی جس میں داخلوں کے اجرا کا اعلان تھا۔ مگر میرے لیے متاثر کن بلکہ خوش کن بات یہ تھی کہ سکول کا نام ’’ البرٹ ہال‘‘ رکھا گیا تھا۔ جبکہ محل وقوع شہر کے پوش علاقے میں بتایا گیا تھا ۔ اس لیے کچھ تعجب سا ہوا کہ بھلا بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہنے والے البرٹ رچرڈ پارسنز کے وارث کیونکر ہوسکتے ہیں۔ ان کوٹھیوں میں تو محنت اور محنت کش ایک جنس(Commodity)کے سوا کچھ نہیں ۔گو کہ یہ طے ہے کہ محنت اور محنت کشوں ہی کے بدولت ان کی زندگیاں عیاشیوں سے بھرپور ہوگئی ہیں۔
بہر حال اتنی بڑیParadoxدیکھ میرا خوش فہمیوں کے بھنور میں پھنسنا فطری سی بات تھی۔بس میں سوچنے لگا کہ کیا یہ واقعی وہی البرٹ تو نہیں جس نے اُنیسویں صدی میں اپنی قربانی سے دنیا کے محنت کشوں کو نجات کا راستہ دکھایا۔ اور جس نے غُلامی کے قبیح رسم کی رکھوالی کرنے والوں کو للکارا اور وہ سعادت مند سورج بھی طلوع ہوتے دیکھا جس کے بعد رنگ اور نسل کے امتیازات ماضی کا حصہ بن گئے۔ وہ طفیلیے اور تاریخی جونک جن کا گزارہ دوسروں کو غلام رکھنے اور ان کی محنت سے کھانے پر تھا، بہت کڑھتے رہے مگر آہنی عزم سے لیس لشکر کے سامنے ان کے سارے حیل و حجت پائمال ہوئے۔ اور پھر تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا جب البرٹ پارسنز کی زمین پر بارک حسین اوبامہ جیسی شخصیت صدر کے طاقتور عہدے کے لیے چُن لیا گیا۔ کائنات میں موجو دمختلف واقعات کے درمیان ربط(Connectivity)کی اس سے عظیم مثال کہیں نہیں مل سکتی۔ جب غُلامی کے خلاف جدوجہد پورے جوبن پہ تھا اُس البرٹ پارسنز کا ایک قول بہت مشہور ہوا تھا جو ہر شخص کے زبان پہ تھا وہ یہ کہ’’ میرے صرف دوہی دشمن ہیں ایک وہ جو جنوب میں غلامی کو دوام دینا چاہتے ہیں اور ایک وہ جو شمال میں روزانہ اُجرت کے نام پر لوگوں کو غلام رکھنا چاہتے ہیں‘‘۔ ایک عظیم مزدور رہنما کے طور پر اُس نے دور اندیشی کا ثبوت دیا کہ شمال کی ہٹ دھرمی اور جنوب کی چالاکی دونوں مساوی طور پر قابل مذمت ہیں۔ وہ سرمایہ داری کے ہر فریب اور ہر چال کو بہت آسانی سے سمجھ سکتا تھا۔
کسی نے پوچھا کہ جدید اور قدیم دنیا میں آقا اور غلام کے درمیان رشتے کے حوالے سے اُن کا کیا خیال ہے ‘تو کہنے لگا کہ ’’کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔۔۔۔۔۔ پہلے آقا غلاموں کا انتخاب خود کرتا تھا جبکہ آج صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ غلام مل کر اپنے آقا کا انتخاب کرتے ہیں‘‘۔ مگر البرٹ کے وژن(Vision) اور مشن(Mission) سے خائف طفیلیے بھی چوکنے رہے اور موقع کی تاک میں تھے کہ دلیل کا سامنا کرنے سے مستقل طور پرچھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔ پھر یہ ہوا کہ البرٹ اپنے دو معصوم بچوں سمیت ایک جلوس میں شریک ہوا ۔ یقیناًوہ اُنہیں نو عمری سے اسی راہ پہ چلنے کی عملی تربیت دینا چاہتا تھا۔ اس جلوس کا ایجنڈا کام کے دورانیے کو گھٹانے سے متعلق تھا۔ مگر طفیلی طبقے نے موقع غنیمت جانتے ہوئے البرٹ کو اس بہانے گرفتار کیا کہ آپ نے بدامنی اور شر پھیلانے کا جرم کیا ہے گو کہ اُس کے دو معصوم بچے بھی اُن کے ساتھ تھے۔ قصہ مختصر وہ دیگر مزدور رہنماؤں سمیت جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند رہا اور پھر وہ نظام جس میں منصف ، وکیل اور گواہ سب ایک خاص طبقے سے dictation لینے والے اپنے مکروہ چہرے سمیت برآمد ہوا۔ اور سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔ دارورسن کے خوف سے بے پرواہ اس نے بہت شان کے ساتھ اس دنیا سے آنکھیں بند کرلیں۔ واقعی ملیریا اور ہیضے سے مرنے والے کروڑوں ہوں گے مگر انسانوں کے حافظے کا حصہ بننے والے صرف وہ ہیں جو بہت دھج سے مقتل میں داخل ہوں کیونکہ زندگی پر ’’stylistics ‘‘ کا عنصر حاوی ہے۔
اب کہانی کا ایک دوسرا رُخ بھی چھیڑتے ہیں ۔ایک دن اُسی سکول کے مالک سے بات ہوئی تو میری تمام ترvain imagination ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ موصوف نے صاف کہہ دیا کہ وہ البرٹ نامی کسی ہیرو سے واقف نہیں۔ سکول کا نام البرٹ ہال رکھنے کی ایک وجہ اُس نے یہ بتائی کہ چونکہ سکول انگلش میڈیم ہے اس لیے انگریزی زبان کا کوئی اچھا صیغہ ڈھیر سارے والدین کو اپنی طرف راغب کرسکتا ہے ۔ کوئٹہ والے کس قدرBusiness minded ہیں آج مجھے اندازہ ہوا ۔ یہ روداد سنی تھی کہ ہاتھ بے ساختہ چہرے پر پھیرنے کے لیے اُٹھے جو کہ عرق حیرت سے تر ہوچکا تھا۔ پھر مجھے اپنے آپ غصہ آنے لگا اس لیے کہ ہماریdiscourse اتنی کمزور کیوں ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ سکول کا مالک گو کہ اپنے کام طاق تھا مگرLabour studiesکے حوالے سے اُس کے skills نہ ہونے کے برابر کیوں ہیں۔
بس پھر میں اپنے آپ سے سوال کرتا رہا اور خود ہی جواب دیتا رہا۔ مثلاً زندگی کے تین بڑے حقائق بتائیں۔۔۔۔۔۔ جواب ملا بھوک، ننگا پن اور بے گھری۔۔۔۔۔۔ ’’ اچھا یہ بتائیں کہcontractکیا ہے اور یہ بھی کہsubcontract محنت کشوں کے لیے کیوں نقصان دہ ہے ؟‘‘ ۔میں خاموش ہوا اور خود سے معذرت کرلی ۔’’ اچھا یہ بتائیں کہoutsourced ٹھیکیداری سے کیا مراد ہے اور کس طرح سرمایہ داروں کے لیے فائدہ مند ہے؟‘‘۔ ایک لمبی خاموشی اور بس۔۔۔۔۔۔ ’’ اچھا یہ بتائیں کہ پاکستان میں لیبر فورس کی تعداد کیا ہے ؟‘‘ ’’ ہائے ! مجھے کیا ہوگیا ہے‘‘ ۔ میں نے خود کوجواب دیا ۔ اچھا ڈاؤن سائزنگ ۔۔۔۔۔۔اچھا یارMalnutrition ۔۔۔۔۔۔’’نہیں معلوم‘‘ اچھا جی ILOکے کتنے کنونشنز۔۔۔۔۔۔ نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔ یار یہ بتائیں کہ پاکستان اس کا signatory ہے ’’ yes‘‘ تو پھر ۔۔۔۔۔۔’’ نہیں معلوم‘‘ ۔
اس سوال و جواب کے بعد میں خود سے بہت نادم ہوا اور اپنی ہیLabour studies کے علم سے متعلق خود سے گلہ کرتا رہا۔ اس سال یومِ مئی جُھکی ہوئی نظروں سے منانے کا ارادہ ہے۔