۔۔۔۔۔۔اور رات میں چوہوں کا حملہ
نہیں! میکلوڈ روڈ ( حالیہ آئی آئی چند ریگر روڈ) کے عقب میں واقع بستی کے نظارے کے لیے روتھ کو اپنی اس وقت تک کی زندگی نے ہر گز تیار نہیں کیاتھا۔
جس وقت روتھ جرمنی میں بڑی ہورہی تھی، یورپ میں جذام ایک بھولا بسرا مرض بن چکا تھا۔ اپنی طبی تربیت کے پورے عرصے میں اس نے کبھی کوئی جزام کا مریض نہیں دیکھا تھا۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں کہ بیکٹیریا کا پیدا کردہ کوئی انفیکشن ، اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے، ہلکے سفید یا سرخی مائل بظاہر بے ضرر چکتوں سے شروع ہوکر، جسم کی ایسی بدہیئتی تک پہنچ سکتا ہے۔
اس نے جرمنی میں تارکینِ وطن کے چہروں پر چھائی ہوئی پریشانی کا مشاہدہ کیا تھا، دوسری جنگ عظیم میں زخمی سپاہیوں کے جسم سے بہتا خون اور مسخ شدہ لاشیں دیکھی تھیں۔ لیکن پاکستان کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر کراچی کے بڑے کاروباری مرکز کے عقب میں جذامیوں کی بستی میں اسے جو کچھ دکھائی دیا وہ ناقابلِ یقین تھا۔ نابینا مرد اور عورتیں ، مسخ شدہ ناکیں، مڑے ہوئے چہرے ، گلے ہوئے ہاتھ اور پاؤں ، پیپ بھرے متعفن زخم، ارد گرد بھنبھناتی مکھیاں اور سڑے ہوئے گوشت کو کترتے چوہے۔
کانونٹ کی تیس سالہ شاگردہ، جس نے ناداری، پاکیزگی اور اطاعت کی قسم کھائی تھی، جس نے اپنی زندگی انسانی مصائب کے خلاف جدوجہد کے لیے وقف کرنے کا عہد کیا تھا، اپنی زندگی کے مقصد تک آپہنچی تھی۔ اس سے بڑی انسانی ابتلا دنیا میں اور کہیں نہیں ہوسکتی تھی۔ یہ وہ تقدیر ساز لمحہ تھا جب اس نے پاکستان میں بس جانے کا فیصلہ کیا۔
زندگی کا یہی وہ مقصد تھا جس نے اسے یہ کہنے پر مجبور کیا تھا، ’’ مجھے افسوس ہے گوئنتھر ، لیکن میں ہاں نہیں کہہ سکتی۔ میری زندگی کسی اور مقصد کے لیے وقف ہے‘‘۔
برینس نے ڈسپنسری قائم کرنے کے لیے سخت محنت کی تھی۔ اس نے جذام کے تقریباً ڈیڑھ سو مریضوں کے متواتر رستے ہوئے زخموں اور گھاؤؤں کا علاج کرنے اور ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کرنے کی اپنی سی تمام تر کوشش کی تھی، لیکن وہ ڈاکٹر نہیں تھی۔ڈاکٹر آناروچا اور ڈاؤ میڈیکل کالج کے تین طالب علم وقتاً فوقتاً اس کی مدد کردیا کرتے تھے، لیکن یہ رضا کار صرف جزوقتی کام کے لیے دستیاب تھے۔ آخر کار اس نے پیرس میں اپنے کانگریگیشن سے ایک خاتون ڈاکٹر یہاں بھیجنے کی استدعا کی تھی۔
روتھ نے جذام کے موضوع پر لکھی جانے والی مستند کتابیں پڑھیں جن میں رابرٹ کوچرین کی کتاب شامل تھی۔ پھر اس نے امریکی معالجِ جذام اور تامل ناڈو، ہندوستان کے شہر ویلّور میں قائم کرسچین میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر پال برانڈ کو خط لکھا؛ دنیا بھر میں ہندوستان ایسا ملک تھا جہاں جذام سے متاثر ہونے والے سب سے زیادہ افراد رہتے تھے۔ ڈاکٹر برانڈ نے اسے ویلّور آکر تربیتی کورس کرنے کی دعوت دی۔
1961 میں روتھ ہوائی جہاز کے ذریعے کراچی سے مدراس اور وہاں سے بس میں سوار ہوکر ویلّور پہنچا جو دریائے پالار کے کنارے واقع ایک خوشحال تجارتی قصبہ ہے اور کرسچین میڈیکل کالج اور ہسپتال کے لیے معروف ہے جسے 1900 میں امریکی مشنری اِرا اسکڈ نے قائم کیا تھا اورجو ہندوستان کے وسیع ترین ہسپتالوں میں سے ایک ہے ۔
ہر صبح روتھ گہرے سبز رنگ سے ڈھکے گنے کے کھیتوں کو پارکرکے ہسپتال میں قائم جذام کی تحقیق اور جذامیوں کی بحالی کے شہرت یافتہ مرکز پہنچتی۔ راستے میں اسے ہر طرف اچھلتے کودتے بندر اور ناریل کے ایک پیڑ سے اڑ کر دوسرے پیڑ پر جاتے طوطے دکھائی دیتے۔ ہسپتال کے اس مرکز میں اس نے جذام کی تشخیص اور علاج کے بارے میں نئی معلومات اور مہارت حاصل کی۔ جنوبی ہند میں اپنے قیام کا اس نے بے حد لطف اٹھایا۔ وہ کیلے کے پتوں پر پروسے ہوئے چاول اور ترکاری کھاتی ، کھلے دیہاتی علاقے میں سائیکل چلاتی اور گرمجوش ہندوستانی عورتوں سے دوستیاں کرتی۔ چھ ہفتے کی سخت تربیت مکمل کرکے وہ پاکستان چلی آئیں۔
وہ میکلوڈ روڈ کی بستی میں ایک نئے ولولے کے ساتھ لوٹی اور اپنے کام کی نئے سرے سے تنظیم کی۔ باقاعدہ رجسٹریشن ، مریض کی ترتیب وار تفصیلات کے اندراج اور طبی ٹیسٹ کرنے کا نظام قائم کیا گیا اور سادہ لیبارٹری ٹیسٹ شروع کیے گئے ۔ جذام کے ایک زیر علاج مریض عبدالرحمن کو، جس کے ہاتھ مرض کے ہاتھوں مسخ ہوچکے تھے، خوردبین کے استعمال کی تربیت دی گئی، وہ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہ چکے تھے اور بستی کے واحد فرد تھے جس نے گداگری کا پیشہ اختیار کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ ٹی بی سینٹر کے سپیشلسٹ ڈاکٹر یاد نے مہربانی کرکے عبدالرحمن کو لیبارٹری ٹکنیکشن کے کورس میں داخلہ دے دیا، حالانکہ کورس میں شامل دوسرے طالب علموں نے ایک جذامی کو داخلہ دیے جانے کی صورت میں کورس کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ عبدالرحمن نے چھ ماہ کا کورس بڑی کامیابی سے مکمل کرلیا اور ڈسپنسری میں واپس آکر اپنا کام سنبھال لیا۔خوردبین ان کی گود میں رکھی ہوتی کیونکہ اسے رکھنے کے لیے علیحدہ میزکی وہاں جگہ نہ تھی۔
اُن دنوں ڈاکٹر جذام کے کسی مریض کو اپنے کلینک یا ہسپتال میں داخل ہونے دینے کے روادار نہ ہوتے تھے۔ جب مظہر حسین کے پیر میں گنگرین ہوگیا تو جناح ہسپتال کے ہڈیوں کے سرجن نے اس کا آپریشن کرنے کی ہامی بھر لی، لیکن یہ آپریشن ہسپتال کے مردہ خانے ہی میں کیا جاسکا۔ آپریشن کے بعد جب مظہر حسین کو ٹیٹنس کی تکلیف ہوگئی تو روتھ کے آنسو نکل آئے۔ وہ ایک کے بعد دوسرے ہسپتال میں مدد حاصل کرنے کے لیے ، دوڑتی پھری اور آخرکار سول ہسپتال کے یونٹ میں پہنچی۔اسسٹنٹ ڈاکٹر نے مظہر کو ہسپتال کے پچھواڑے کے برآمدے میں داخل کیا۔ مریض کی حالت بہتر ہوگئی لیکن اسسٹنٹ ڈاکٹر کو ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے جواب طلبی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے جواب میں ڈاکٹر جعفر علی ہاشمی نے لکھا ، ’ سر، اگر میں اس مریض کو داخل کرنے سے انکار کردیتا جسے ایک غیر ملکی خاتون خود اپنے ساتھ لے کر آئی تھی جسے ہمارے ملک کے اس قانون کا علم تھا کہ ہسپتال میں داخل ہونا ہر مریض کا حق ہے، تو کیا یہ بات آپ کو پسند آتی؟‘‘ اس جواب نے ڈاکٹر ہاشمی کو برطرفی سے بچالیا لیکن ان کا تبادلہ فوری طورپر میونسپلٹی کے جذامی علاج کے مرکز میں کردیا گیا جو بہت دور منگھو پیر میں و اقع تھا۔
اس سے پہلے کئی ڈاکٹر اس مرکز میں تعینات ہونے سے انکار کرچکے تھے لیکن ڈاکٹر ہاشمی نے اپنے تبادلے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اور ڈاکٹر روتھ سے مدد کی درخواست کی تاکہ اس خستہ حال مرکز کو نئے سرے سے بحال کیا جاسکے۔ میکلوڈ روڈ کی بستی اور منگھو پیر کے مرکز کے درمیان ہفتے میں دوبار کے دوروں کا انتظام کیا گیا اور اس طرح یہ ادارہ دوبارہ کارآمد بنالیا گیا ۔ ڈاکٹر ہاشمی نے خود کو ایک قابل منتظم ثابت کیا۔
آنکھوں کے امراض کے سپنسر ہسپتال کے سپیشلسٹ ڈاکٹر ایم ایچ رضوی بھی ان معدودے چند ڈاکٹروں میں سے ایک تھا جو کسی جذامی کو اپنے ہسپتال میں داخلہ دینے سے انکار نہیں کرتا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا کہ روتھ مریضوں کو ساتھ لے کر بس کے ذریعے پہلے لی مارکیٹ اور پھر پیدل ان کے ہسپتال پہنچتیں، صرف اس غرض سے کہ کسی طرح ان مریضوں کی بینائی بچائی جاسکے۔
اپنے مقصد سے یہی لگن تھی جس سے متاثر ہوکر ڈاکٹر زرینہ نے 1962 میں میکلوڈ روڈ کی بستی میں قدم رکھا۔ جب قیمتی لباس میں ملبوس ماہرِ امراضِ جلد خستہ حال ڈسپنسری میں داخل ہوئی تو روتھ نے اسے ایک مالدار گھرانے کی بیگم سمجھا جو شاید بریانی کی چند دیگیں بطور خیرات لے کر آئی ہو گی۔ اور انہیں وہاں چھوڑ کر فوراً باہر نکل جائے گی۔ لیکن زرینہ نے اپنی استقامت کو ثابت کیا۔ اس کی پرائیویٹ پریکٹس بہت عمدہ چل رہی تھی اور پہلے پہل اس نے مائیکروسکوپی کی خدمات فراہم کرنے کی پیشکش کی ، لیکن بہت جلد نوجوان غیر ملکیوں کی مدد کے لیے ان کے زیر اہتمام چلنے والی اس ڈسپنسری کا ہر کام سنبھال لیا۔ یہ سب عورتیں تھیں ، الگ الگ سرزمینوں سے آئی تھیں، مختلف زبانیں بولتی تھیں ، لیکن ناداروں کی مدد کرنے کا جذبہ آپس میں مشترک رکھتی تھیں۔
انہی دنوں انگلستان کی ملکہ الزبتھ دوم نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں مغربی صحافی بھی آئے۔ کراچی کی بڑی تجارتی شاہراہ سے گزرتے ہوئے چند صحافی جذامیوں کی بستی میں بھی آنکلے۔ چند ہفتے بعد ایک جرمن ٹیبلو ائڈ اخبار’’ بِلڈ‘‘ میں ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا: ’’ ۔۔۔۔۔۔ اور رات میں چوہوں کا حملہ !‘‘ اس سنسنی خیز سرخی نے وورز برگ میں رہنے والے ہر من کو بیر کی توجہ اپنی جانب کھینچی ۔ اتفاق سے کوبیر جرمن لیپرسی ایسوسی ایشن کا صدر تھا۔ اس نے فوراً کراچی میں روتھ فاؤ کی رہائش گاہ کا پتہ دریافت کیا اور اسے خط لکھا:’’ یہ کس طرح ہوا کہ ایک جرمن ڈاکٹر جذام کے خلاف کام کررہی ہے اور جرمن لیپرسی ایسوسی ایشن کو اس کی خبر تک نہیں‘‘۔ جواب میں روتھ نے لکھا : ’’ یہ کس طرح ہوا کہ جذام کے خلاف کام کرنے والی ایک جرمن ڈاکٹر کو خبر تک نہیں کہ کوئی جرمن لیپرسی ایسوسی ایشن بھی وجود رکھتی ہے‘‘۔ جرمنی سے آنے والے شائستہ پیغام میں دریافت کیا گیا :’’ ہم آپ کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ میکلوڈ روڈ کی جانب سے اپنی کارڈ بورڈ کی بنی ڈسپنسری کی تصویر بھیجی گئی جس میں کسی قسم کے آلات تھے نہ تربیت یافتہ عملہ۔ وورز برگ میں ایسوسی ایشن کے دفتر نے فوراً ڈسپنسری کے لیے سامان روانہ کیا اور ساتھ میں ایک تربیت یافتہ نرس سسٹرایلی کو بھی بھیجا۔
انہی دنوں ترقی پذیر ملکوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے جرمن بشپس کی تنظیم ’’ مسیر یور‘‘ کے ایک وفد نے کراچی کا دورہ کیا۔ ان کے نمائندے نے روتھ سے دریافت کیا، ’’ آپ ڈسپنسری کی عمارت کیوں نہیں بنوالیتیں؟‘‘، ’’ ہمارے پاس اس کے لیے رقم کہاں ہے ؟‘‘۔ سوال کے جواب میں سوال کیا گیا ۔نمائندے نے عندیہ دیا کہ جرمنی کے لوگ اس سلسلے میں ہاتھ بٹاسکتے ہیں۔ اس بات نے ایک امکان کا دروازہ کھول دیا ۔ شہر کے مرکزی علاقے صدر میں ایک دو منزلہ نرسنگ ہوم اس کے مالک ڈاکٹر پنٹو سے خرید لیا گیا جو انگلستان منتقل ہورہا تھا۔ اس کی قیمت مسیریور نے ادا کی۔
نرسنگ ہوم کے سامنے واقع کلینک کی مخالفت کے پیش نظر ’’ میری ایڈیلیڈ ڈسپنسری‘‘ کو نئی عمارت میں 9اپریل1932 کی رات کے اندھیرے میں منتقل کیا گیا۔ پڑوسیوں کو اس کا علم صبح کے وقت ہوا اور انہوں نے انڈوں، ٹماٹروں، پتھروں اور گالیوں سے خیر مقدم کیا؛ یہ سب چیزیں ڈسپنسری کی بغیر شیشوں کی کھڑکیوں سے گزر کر اندر پہنچیں۔جب روتھ کے کانوں میں ’’ گدھے کے بچے‘‘ کے الفاظ پڑے تو یہ انہیں خاصے دلکش محسوس ہوئے۔انہیں سمجھانے کی ضرورت پیش آئی کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے ۔
اس کے بعد عدالت میں ایک مقدمہ شروع ہوا جو روتھ اورزرینہ نے مل کر لڑا اور آخر کار جیت لیا۔ اس میں جذام کے علاج کے بین الاقوامی ماہروں مثلاً ڈاکٹر پال برانڈ، ڈاکٹر اسٹینلے براؤن اور عالمی ادارۂ صحت کے جذام کے مشیر ڈاکٹر اے میکلوی کے خطوط نے اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر میکلوی ہی نے روتھ کو مشورہ دیا کہ وہ جذام کے انسداد کے مقامی منصوبے میونسپل لیپرسی کنٹرول پروگرام کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کریں جو بہت دنوں سے عملاً بے مصرف ہوچکا تھا ۔ جب روتھ اس پروگرام کے انچارج سے ملنے پہنچیں تو نمایاں توند والے پان چباتے شخص نے انہیں مسکراتے ہوئے اپنے کلینک دکھانے کی پیشکش کی۔ جب وہ گاڑی میں سوار ہوکر غیر فعال کلینکوں کے تالے پڑے دروازوں تک پہنچتے تو کوئی چوکیدار یا چپڑاسی انچارج سے پوچھ بیٹھتا کہ اس کے ساتھ یہ خاتون کون ہے ۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ انہیں اردو نہیں آتی ہوگی، انچارج اپنے پان کی پیک سے بھرے منہ سے بڑے فخر سے کہتا، ’’ یہ ہماری گڑیا ہیں!‘‘ تاہم گڑیا کو اب تک اتنی اردو آچکی تھی کہ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی لیکن وہ منہ بند کیے بیٹھی رہی۔
ایک بار پھر یہ ڈاکٹر میکلوی ہی تھی جس نے سوات کے ایک دورے کے بعد روتھ سے سلطان محمد کا ذکر کیا اور مشورہ دیا کہ وہ سلطان محمد کو کراچی بلوا کر جذام کے ٹکنیشن کے طورپر تربیت دیں۔ سلطان محمد ایک نوجوان پیرامیڈیکل ورکر تھا اور سوات کے ایک گاؤں پیر بابا کی ڈسپنسری میں کام کرتے تھے ۔ پیر بابا کی درگاہ پاکستان کے پورے شمالی حصے میں جذام کے مریضوں کی پناہ گاہ تصور کی جاتی تھی۔ ان مریضوں میں سے بہت سے ایک ایک کرکے کراچی آجاتے اور گداگری کرنے لگتے۔ ریاست سوات کے نیک دل والی نے درگاہ کے پاس ان بد نصیب جذامیوں کے لیے ایک ڈسپنسری اور اس کے ارد گرد رہنے کے لیے چند مکان بنوادیے تھے۔ ڈاکٹر میکلوی نے والیِ سوات عبدالحق اورنگزیب سے سلطان محمد کی کراچی میں تربیت کی اجازت پہلے ہی لے لی تھیں۔