بلوچی تھیریم
بلوچی تھیریم (Baluchitherium)(بلوچستان کا درندہ) نامی ایک میمالیہ کے فاسلز ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک بے نظیردریافت ہے ۔ بلوچستان جب بھی کرے گا نرالا ہی کرے گا۔ یعنی اِس کرہِ زمین پر پایا جانے والا سب سے بڑا جانور یہاں رہتا تھا۔یہ 30ملین سے لے کر 20 ملین سال قبل تک یہاں بلوچستان کے گرم ترین خطے میں دندناتا پھرتا تھا جب ہمارا وطن سرسبز اور گھنے جنگلات سے ہرا بھرا ہوتا تھا ۔ یہ بلاؤں کا بلا بگٹی علاقے میں سوئی سے شمال میں1985 میں دریافت ہوا تھا۔ژاں لوپ ویلکم کی قیادت میں فرانس کی ایک یونیورسٹی کے فاسلز ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا پورا ڈھانچہ کھو د نکالا۔
فاسل(fossil) اُن جانداروں کے ڈھانچوں کو کہا جاتا ہے جو مرنے کے بعد اپنی جگہ پر پڑے رہنے پر مختلف قسم کی چیزوں سے ڈھک جاتے ہیں۔ مثلاً مٹی کے ذرات، پودوں کے باقیات وغیرہ سے۔ پھر وہ اِن ہی چیزوں کے نیچے دبتے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ پھر وہ اسی زمین کا حصہ بن جاتے ہیں جبکہ اُن کے اوپر کی گرداپنے ہی وزن سے سخت ہوتی جاتی ہے ۔ اس طرح وہ کئی سال تک وہاں محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ان کی ہڈیاں چونکہ اپنی ساخت برقرار رکھتی ہیں۔ اس لیے تہہ در تہہ کھدائی کرکے ان ڈھانچوں کی ہڈیوں کے ذریعے تحقیق کی جاسکتی ہے۔
یہ جانور سینگوں کے بغیر تھا، یہ آٹھ میٹر(28,27فٹ) لمبا اور ساڑھے پانچ میٹر (18 فٹ)اونچا تھا۔ اس کا وزن پتہ ہے کتنا تھا۔۔۔۔۔۔بیس میٹرک ٹن!! افریقی ہاتھی کے باپ سے بھی بڑا ۔۔۔۔۔۔تصور سے بھی بڑا۔لمبی گردن اور رومن پلرز(ستون) جیسی لمبی ٹانگیں اسے جنگل چَٹ کرنے میں مدد دیتے تھے۔(شکر ہے یہ گوشت خور جانور نہ تھا)۔ یہ کافر روزانہ دو ٹن خوراک کھاتا تھا۔ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں اس فضول خرچ بد بلا کو کھلانے کے لئے اُس زمانے میں کتنا گھنا اور بڑا جنگل ہوگا؟ ۔۔۔۔۔۔اب ذرا سا تکلیف کریں کوئٹہ سریاب روڈ پر موجود جیالوجیکل سروے آف پاکستان کے میوزیم کا چکر لگا آئیں۔ وہاں اس جانور کی فاسل شدہ ہڈیوں کو زمین پرآپس میں فٹ کرکے رکھا ہوا ہے۔ لگتا ہے جانور آرام فرمارہا ہے۔ اپنے بچوں کو ضرور دکھائیں۔اور اس میوزیم کا چکر لگا کر بچوں کو واپس لائیں، انہیں کمپیوٹر پر بٹھا دیں اور انٹرنیٹ پر Baluchitherium لکھ کر Enter کا بٹن دبا دیں ۔ اُس کے بعد تو آپ بھی بلوچستان سے محبت کی دنیا میں داخل ہو جائیں گے اورآپ کے بچے بھی جہالت سے ملینوں سال دور ہو جائیں گے۔
یہ جانورخاص جغرافیائی حالات میں بڑھوتری پا گیا تھا ۔۔۔ یہ بڑا جانور دو کروڑ اسی لاکھ سال پرانا ہے۔ یعنی ہمارا ڈیرہ بگٹی تین کروڑ سال قبل گھنے اور سرسبز بارانی جنگلات کی سرزمین تھی۔جنگلات ، نمی ، اور پانی کی فراوانی والے ایسے موزوں حالات جس میں اِن جہازی سائز کے گوحوں کا مقابلہ کرنے والا کوئی درندہ ہی موجود نہ رہا ۔ لہٰذا زبردست انداز میں ان رینگنے والے جانوروں( Reptiles) کی نشوونما ہوتی رہی ۔
خیال کی جاتا ہے کہ تین کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے ( جب ابھی ابھی ہمالیہ نے ابھرنا شروع کیا تھا ) ، یہ جانور انڈین اور بقیہ ایشیا کے درمیان زمینی پلوں کو استعمال کرتے ہوئے یہاں پھیل گئے۔ یہ سارا علاقہ فاسلز سے بھرا پڑا ہے۔
بگٹی علاقہ قدیم ترینMastodon کے فاسلز کے لیے مشہور ہے جو کہ جدید ہاتھیوں کے معدوم شدہ رشتے دار ہیں۔
فرانسیسی ماہرِ فاسلز ژاںؔ لوپ ویلکم کے بقول ’’ یہ ایک پورا ریوڑ تھا۔ ان کے فاسلز آج ایک خشک شدہ مگر اُس زمانے میں ایک گہرے وسیع دریا کے bedمیں ملے۔ اچھا یہ وہ زمانہ ہے کہ ڈائنو ساروں کو معدوم ہوئے عرصہ بیت گیا تھا ۔ لہٰذا یہ دیو جتنا بڑا جانور بغیر کسی مقابلہ اور ڈر کے مزے مزے سے درختوں کی ٹہنیوں کے بھی آخری حصے کا نرم و نازک علاقہ چرتے رہے تھے۔ ایسی بد بلا ڈراؤ نے دیو کو درندوں سے کیا ڈر ہوگا؟۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ ریوڑکی صورت اکٹھے رہتے تھے۔
اب28 ملین ( دو کروڑ اسّی ) برس بعد پیرس میں نیچرل ہسٹری میوزیم اور یونیورسٹی آف مونٹی پلییئر کے سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ماہرینِ فاسلز (palaeontologists) اسی وادی میں اتر گئے ، جو کہ اب ریتلی اور بنجر ہے۔ وہ سائنس دان اس بہت بڑے ڈھانچے کو آخری صورت دینے لگے جو کہ انہوں نے اسی ریوڑ کی فاسل شدہ ہڈیوں کو ترتیب سے رکھ کر بنایا تھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ ساتھ فٹے اور پیمائشیں رکھیں۔ ٹیم لیڈر ژاں لوپ ویلکم پچھلی ٹانگوں کے درمیان جھکتا ہے۔ اور اپنا ہاتھ ایک بہت بڑی کلائی ہڈی کے ساتھ رکھتا ہے تاکہ سائز معلوم کرسکے۔ ٹیم نے انہیں جھاڑ پونچھ لیا، اِن ہڈیوں کے گرد سفید پلاسٹر کا خاکہ کھینچا ۔ اُس مرتب شدہ تصویر میں بچوں جیسی بات ہے جو کہ ایک مہین، بغیر سینگوں والے rhino کی طرح ہے۔ یہ پانچ میٹر سے زیادہ بلند ہے۔ اور ناک سے لے کر دم تک نو میٹر لمبا تھا اور اس کا وزن بیس ہزار کلومیٹر رہا ہوگا جو کہ ہاتھی کے وزن سے چار گنا زیادہ ہے۔
ان زمینی دیو وہیکل ممالیوں کے فاسلزجنہیں ’’بلوچی تھیریم ‘‘ کہا جاتاہے سب سے پہلے 1908 میں دریافت ہوئے ، جب ایک برطانوی ماہر فاسلزڈاکٹر کلائیوؔ فورسٹر ، کو پرؔ ایک مہم پر بگٹی علاقے گیا تھا۔
ہزاروں برس بعد بالآخر پانی والا علاقہ محدود ہوتا گیا ، موسم خشک ہوتا گیا ، سرد تر ہوتا گیا اور نئی مخلوق اورجاندار نمو دار ہوتے گئے ۔ اس نئے ماحول میں رینگنے والے جانوروں (Reptiles)کی تعداد اور قسمیں کم ہوتی گئیں سب سے زیادہ موزوں((Fitness حالات و اوصاف دشمنی میں بدل گئے ۔ Survival of Fittest (جو سب سے زیادہ فِٹ ہو گا وہی زندہ رہے گا)کا ڈارونی قانون بڑے بڑے ناموروں کی موت کا سبب بنا ، بس حقیر گوح رہ گئے جو اومر بن کر ماہناز کے گریبان کی چیر پھاڑ کا استعاراتی کام کرتے ہیں یا چرواہوں کے ریوڑ میں بکری کے دودھ بھرے تھنوں کا دودھ پی کر خالی کر دیتے ہیں ۔۔۔ اور یہ پکی بات ہے کہ یہ بھی ہزاروں سال تک زندہ نہ رہ سکیں گے ۔ ابھی تو بس یہ اپنی نسل باقی رکھے ہوئے ہیں ۔
اِن گوحوں‘ باغاروں اور چھپکلیوں سے تو خرگوش اچھے ہیں ۔ اِن کی مادہ ہر سال درجنوں بچے جنتی ہے مگر آبادی وہیں کی وہیں ہے ۔ ان بچوں سے ایک دو ہی بچ سکتے ہیں ۔ باقی طبعی موت کے مقدر کے حوالے ہو جاتے ہیں ۔
مگر انسان کو دیکھئے ۔ عورت اگر تین سال بعد نہ بھی سہی ، تب بھی سالانہ ایک دو بچوں سے زیادہ بچے نہیں جنتی۔ اور اگر کبھی تین سے زیادہ جڑواں بچے دنیا کے کسی کونے میں پیدا ہوں تو وہ گویا ایک عالمی خبر بن جاتی ہے۔ لوگ حیرت سے اس پر تبصرے بحثیں کرتے ہیں۔ اُن بچوں کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لئے ماں باپ کو چندے تحائف بھیجتے ہیں۔ مگر تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اُن میں سے اکثر بچے ایک ماہ کی عمر ہی کے دوران مر جاتے ہیں ۔ بہت کوٹہ سسٹم مقرر ہے انسان کی پیدائش پر۔ ایک عورت عمر بھر (اوسطاً)8،10 بچوں سے زیادہ پیدا نہیں کر سکتی ۔مگر پھر بھی ہماری انسانی آبادی بڑھتی جا رہی ہے ۔ یعنی ہم خرگوش کے مقابلے میں زندہ رہنے ) (Survival کے لئے زیادہ فِٹ ہیں ۔ فطرت کی تاریخ میں نئی نئی مخلوقات پیدا ہوتی رہیں جو پچھلی سے زیادہ فِٹ اور زندہ رہنے کے لئے مطابقت پذیری رکھتی تھیں ، خوراک اور پناہ گاہیں تلاش کرتی تھیں اور اس طرح بڑھتی رہتی تھیں ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگلی (پہاڑی) دنبہ ایک سرد پہاڑی ماحول میں زندہ رہ سکتی ہے اس لئے کہ اس نے چمڑے کے نیچے چربی اور کھال کے اوپر پشم کا ایک کوٹ پہن رکھا ہوتا ہے ۔ انسان بے چارے کے پاس یہ پشمینہ کوٹ موجود نہ تھا ۔ اُس نے بے لباسی کے زمانے میں بھی اور اس کے بعد بھی انہی بھیڑوں کے پشم کے اَن سلے ، اور بعد میں سلے ہوئے کوٹ اور سویٹر بنائے اور خود کو کوئٹہ سوراب اور قلات و ہربوئی میں زندہ رکھنے کے قابل بنایا ۔ انگریز کے وقت تک بلوچ پوستینیں پہنا کرتے تھے ۔۔۔ غریب ، غریب پوستین اور امیر، امیر پوستین پہنتا تھا ۔ جانوروں نے پنجوں کے ذریعے سرد علاقوں میں زمین کھود کر پناہ جاہ بنائی تو انسان نے پتھر‘ کانسی یا لوہے کی مدد سے اِگلو والے برفانی غار کھودے یا پھر مٹی گارے کے کمرے بنائے اور بعد میں سیمنٹ سریہ کے مکان بمع آتش دان و انگھیٹی تعمیر کئے ۔ جانور (درندے) زندہ رہنے کے لئے دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں تو انسان نے پتھر ، نوکدار پتھر ، پھر تیرو تیر کمان اور پھر شاٹ گن بنا کر شکار سے خود کو زندہ رکھنا شروع کیا ۔
مندرجہ بالا دو دریافتوں نے محققوں اور دانشوروں کے لئے دو سوال پیدا کئے ہیں ۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک کروڑ ستر لاکھ سال قبل کا دریافت شدہ ’’رھوڈوسی ٹس بلوچستانی سس ‘‘ سے پہلے کا بلوچستان کیسا تھا ۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس وھیل اور بلوچی تھیریم کے درمیان جو ڈیڑھ کروڑ سال کا عرصہ گم ہے ، وہ کیسا تھا ۔

حوالہ جات
-1 شیخ، نوید اسلم۔ پاکستان کے آثارِ قدیمہ۔2008۔ بک ہوم لاہور۔ صفحہ63
-2 بران، ڈیوڈ ۔Ancient walking whales shed light on Ancestry of Ocean Giants
http://news nationalgeographic.com/news/pf/37243652.html
3۔ گنگرِخ، فلپ اور دیگر ۔Origin of Whales from early artiodactyls ۔ماہنامہ ’’سائنس ‘‘۔ جلد 293۔ ستمبر 2001۔ صفحہ 2239-2242

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے