ڈاکٹر شاہ محمد مری اپنی کتاب عورتوں کی تحریک میں لکھتے ہیں کہ مادر سری دور میں عورت معاشرے کی سب سے زیادہ متحرک اور فعال ذات تھی کہ جس نے تہذیب و تمدن کو آگے بڑھانے میں اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ عورت کے کارہائے نمایاں کو انسان کی قدیم ترین آبادی یعنی مہر گڑھ تہذیب و ثقافت سے دریافت کیا ہے، جب عورت خوارک اندوزی کرتی تھی اور قبیلے کی سربراہ تھی۔ مہر گڑھ سے برآمد ہونے والے غلے کے گودام اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ جوار، جو، باجرہ، گندم، کجھور، انگور اور کپاس کی کاشت مہر گڑھ میں شروع ہوئی۔ کپاس کو کات کر پارچہ بانی بھی عورت نے ایجاد کیا۔ جنگلی بھینس، گائے، بیل اور بھیڑ بکریاں بھی عورت کے ہاتھوں پالتو بنیں۔ غرض مہر گڑھ کی عورت ذات نے اپنا کردار بہتر طریقے سے پیش کیا اور آج بھی بلوچ سماج عورت کے کردار سے انکاری نہیں۔
جہاں بات مہر گڑھ کی آتی ہے تو یہ قدیم تہذیب بھی بلوچستان کا ورثہ ہے۔ اور اس قدیم تہذیب نے عورت کی تاریخ کو جاوداں بنانے میں اہم کردار ادا کیا پھر ہمارے استاد واجہ شاہ محمد مری صاحب نے اپنی کتاب عورت کی تحریک کو بہترین انداز میں تخلیق کرکے کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے۔ یقیناًانکے اس کام کی تعریف کرنی ہوگی۔کیا ہی اچھا ہوا ، بلوچستان کی ایک خواتین تنظیم کا قیام 8مارچ 2016 کو یومِ خواتین کے موقع پر عمل میں آیا۔ اس تنظیم کا نام ’’سمو راج ءِ ونڈ ‘‘ رکھا گیا۔ یقیناًبلوچستان کی سطح پر خواتین کو پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرے گی۔ تنظیم کی سربراہ نورین لہڑی کو بنا لیا گیا۔ اس تنظیم کے حوالے سے ڈاکٹرشاہ محمد مری کا کہنا تھا۔ ’’ یہ پرانی تنظیموں کی ایک تسلسل ہے۔سماج میں عورتوں کے حقوق ،جمہوریت اور انقلاب کے لئے جدوجہد کرے گی۔یہاں سرمایہ دارانہ اور طبقاتی سماج میں ا یک طبقہ زور آور ہے جبکہ باقی طبقے کمزور ہیں۔اس میں عام عورت کی نمائندگی ہوگی۔ چاہے وہ پڑھی لکھی ہو یا وہ عورتوں کی حقوق پر یقین رکھتی ہے۔مردوں کے شانہ بشانہ انصاف کے لئے کام کرتی ہوں۔مزدور ، کسان کمزور ہیں تو عورتیں کمزور ہیں‘‘۔انکا مزید کہنا ہے کہ ہمارے ہاں تین مسائل ہیں ایک تو بلوچوں کے وہ حقوق جو مرکز نے سلب کئے ہیں۔دوسرا یہ سماجی طبقاتی نظام ہے جس نے غریب کی حقوق سلب کئے ہیں جبکہ تیسرے عورتوں کے وہ حقوق ہیں جنہیں صلب کیا گیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عورتوں کی یہ تحریک مردوں کے خلاف نہیں بلکہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ اس نظام کے خلاف جدو جہد کریں گی۔
بلوچستانی صحافت میں مردوں کا غلبہ رہا ہے۔ خواتین بہت کم اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ انکے لئے حائل رکاوٹ بہت ہیں۔ فیلڈ سے وابستہ خواتین کی تعداد اس وقت 4ہے۔ جو کوئٹہ کی سطح پر الیکٹرانک میڈیا سے جڑی ہوئی ہیں انہی خواتین میں سے ایک بشریٰ قمر ہیں۔ انہوں نے اردو میں ماسٹر کرنے کے ساتھ ٹیکسٹائل انجیئرنگ کے شعبے سے ڈگری بھی حاصل کی ہے۔والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی صحافت کے شعبے کا انتخاب کیا۔ وہ گزشتہ 10سال سے صحافتی شعبے کے مختلف اداروں سے وابستہ ہیں شروع وہ پرنٹ میڈیا کے ساتھ وابستہ رہیں بعد میں انہیں الیکٹرانک میڈیا میں کام کرنے کا موقع ملا۔پہلے انہوں نے کیپٹل میں تو بعد میں نیو چینل کو جوائن کیا۔ بشریٰ قمر نے نہ صرف اپنی رپورٹنگ کے ذریعے سماجی مسائل کو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں بلکہ اسکے ساتھ انہوں نے پیش آنے والے واقعات کی براہ راست رپورٹنگ کی ہے۔تو ایک خاتون کو فیلڈ میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس حوالے سے انکا کہنا تھا’’ ایک خاتون کا اس معاشرے میں جہاں ہر طرف مردوں کا راج ہے رپورٹنگ کرنا ایک مشکل کام ہے لوگوں کے رویے بھی عجیب ہوتے ہیں اور اکثر جگہوں پر ڈسٹربینس کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان تمام مسائل کے باوجود ہر مشکل کا حوصلے کے ساتھ سامنا کرتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو آگے آنا چاہئے جب تک وہ آگے نہیں آئیں گی تو ان کے زندگی کے فیصلے بھی مرد کرتے ہیں۔ اگر عورتوں کے حوالے سے کوئی بل بن رہی ہے تو وہ بھی مرد بنا رہے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ عورتوں کو خود آگے آنے چاہئے اور گورنمنٹ کو چاہئے کہ وہ خواتین کو آگے آنے کے لئے مواقع فراہم کرے۔
تانیہ بلوچ ان سائیڈ بلوچستان میگزین کی چیف ایڈیٹر ہیں۔ وہ بھی اپنی والدہ نرگس بلوچ کی نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ ان کے میگزین نے کم وقت میں بلوچستان میں اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے ہیں۔ وہ بلوچستان میں خواتین کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتی ہیں۔’’ بلوچستان میں اول تو خواتین کے لئے جرنلزم کے فیلڈ میں کام کرنا آسان نہیں ۔دوسری یہ کہ ان خواتین کے لئے مواقع کی کمی نہیں ۔میری خوش قسمتی ہے کہ میری والدہ خود اسی شعبے سے وابستہ رہی ہیں انہوں نے مجھے کافی حوصلہ دیا۔ میں نے مکران بیلٹ میں جتنی خواتین دیکھی ہیں جو کہ مختلف فورم پر اپنی حقوق کی بات کرتی ہیں اور ان میں بات کرنے کی جرات ہے لیکن انہیں حوصلہ فراہم کرنے کے لئے پلیٹ فارمز اور انہیں مواقع دینے کی ضرورت ہے جو انہیں نہیں مل رہا‘‘۔
بلوچستان میں ایسی خواتین کی کمی نہیں جنہوں نے پسماندہ علاقوں میں خدمت کے پیشے کو اپنایا۔ اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ڈاکٹر راحت جبین ان خواتین میں ایک ہیں جنہوں میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہو کر آواران جیسے پسماندہ ضلع میں خدمت کی انجام دہی کی۔ پنجگور سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون شادی کے بعد گزشتہ 13سال سے طب کے شعبے میں خدمت انجام دینے والی واحد عورت ہیں۔جب ان سے پوچھا کہ ایک خاتون کا ایک ایسے علاقے میں فرائض انجام دینا جو کہ پسماندہ ہو کتنا مشکل کام ہے ۔ تو وہ کہتی ہیں۔ ’’کام تو مشکل ہے پر کرنا ہے۔ اول تو یہ کہ حکومت ڈاکٹرز کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتی جو ان کا حق ہے۔ دوئم یہ کہ ایک پورے ضلع کو ایک فیمیل ڈاکٹر کا کور کرنا اس سے بھی بڑھ کر مشکل کام ہے۔ ‘‘۔ وہ کہتی ہے کہ خواتین کو اپنے مسائل کے حل کے لئے خود آگے نکلنا چاہئے۔ بلوچ خواتین کو تعلیم کے حوالے سے رکاوٹ کا سامنا نہیں خواتین اپنا فیصلہ خود کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عورتوں کے لئے بنیادی تعلیم کی فراہمی کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ جتنے این جی اوز سیکٹر کے لوگ انکے پاس آتے ہیں میں ان سے کہتی ہوں کہ آپ یہاں کی تعلیم کے لئے کام کریں۔ لیکن وہ تعلیم کے حوالے سے کام نہیں کرتیں بلکہ صرف میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں۔ میں ان سے کہتی ہوں کہ یہی پیسے ایجوکیشن پر خرچ کریں۔ لیکن انہیں اپنی کرنی ہے اس سے بہت مایوسی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہے ’’ ہمارے معاشرے میں خواتین کے لئے مواقع کی کمی ہے۔ مجھے بذات خود حکومت کی جانب سے مواقع دستیاب نہیں تھے بلکہ یہ میرے والد کی کوششیں تھیں جنہوں نے مجھے تعلیم دی اور میں آج علاقے میں خدمات سرانجام دے رہی ہوں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ خواتین کی تعلیم و صحت کے لئے اقدامات اٹھائے۔
ہمارے سماج میں ایسی خواتین کی کمی نہیں جن کے سر پر والد کا شفقت نہیں رہا لیکن انہوں نے بلند حوصلوں سے مصائب و مشکلات کو مات دے کر اپنے آپ کو سماج میں منوایا۔ وہ نہ صرف اپنے آپکو لے کر آگے بڑھیں بلکہ انہوں نے سماج کو کچھ دینے کے لئے اپنی گرانقدر خدمات کو وقف کرکے رکھ دیا۔ گوادر سے تعلق رکھنے والی شہناز لال نے دنیا میں دکھ سہے اور دوسروں کی تکلیف محسوس کئے۔ 13سال تک ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابسطہ رہنے کے بعد وہ اب گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول شمبے اسماعیل میں بطور ہیڈ ٹیچر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات اور ان مشکلات کا مقابلہ کس طرح کیا ہے کے حوالے سے بتاتی ہیں۔’’سوسائٹی میں خواتین اس وقت تک گھروں سے باہر نہیں نکلتیں جب تک انکی کوئی مجبوری نہ ہو یا کہ اسکی فیملی مالی مشکلات کا شکار نہ ہو۔ میرے ساتھ دونوں مسائل تھے۔ مالی مشکلات اس وقت شروع ہو گئیں جب میرے والدین میں علیٰحدگی ہو گئی اس وقت میں گیارہویں جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ میری خواہش تھی کہ میں پڑھ کر ڈاکٹر بنوں لیکن گھرکے حالات نے خیالات یکدم تبدیل کر دیئے۔ بھائی چھوٹے تھے تعلیم ادھورا چھوڑ کر سوشل سیکٹر سے وابستہ ہوگئی۔ جب میں نے شروع میں این جی اوز سیکٹر کو جوائن کیا تو لوگوں کی جانب سے جملے کسے جاتے تھے کہ ایک بلوچ خاتون این جی او میں کیسے کام کر سکتی ہے۔ وہ میری مجبوری کو سمجھتے نہیں تھے اور مجھے معاشرے پر بوجھ نہیں بننا تھا اور آگے جانے کی جتن رہی ۔ تو میں نے بلند حوصلوں سے قدم آگے بڑھائے ۔ اب سماج میں آہستہ آہستہ تبدیلی آ رہی ہے مردوں کے خیالات تبدیل ہو رہے ہیں ۔اب وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو بھی مختلف سیکٹر میں کام کرنا چاہے۔ ‘‘وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت کو اس بناء پر غلط سمجھنا کہ وہ مردوں کے معاشرے میں کام کرتی ہے۔ یہ معاشرہ مرد اور عورت دونوں کا معاشرہ ہے دونوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ خواتین آگے آئیں اور معاشرے کے لئے کام کر یں۔ وہ غریب طالبات کی مدد بھی کرتی رہتی ہیں انکی خواہش ہے کہ انکا اسکول مثالی ادارہ بنے لیکن اس خواہش کے آگے ایک مسئلہ رکاوٹ کھڑی کرتی ہے وہ ہے پورے ہائی اسکول میں سائنس ٹیچر کا نہ ہونا۔
پروین ناز کا تعلق کیچ سے ہے لیکن اس نے بچپن لیاری میں گزاری ۔وہ لیاری کی سطح پر خواتین کی تعلیم، صحت اور سماجی مسائل پر آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ وہ سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ ادبی کاموں میں بھرپور انداز میں حصہ لیتی ہیں۔ کراچی کی مختلف تقریبات اور خاص کر بک اسٹالوں پر لیاری سے تعلق رکھنے والی کوئی خاتون چشمہ پہنے آپکو ملے تو وہ کوئی اور نہیں پروین ناز ہیں۔پروین ناز اس وقت ایک انٹرنیشنل این جی او ایکشن ایڈ کے ساتھ کام کر رہی ہیں وہ سندھ میں کام کر چکی ہیں اور بلوچستان کے مسائل سے بھی بخوبی واقف ہیں اور بلوچستانی خواتین کو مسائل میں گھری ہوئی دیکھی ہے۔ اور انکی کوشش اور خواہش ہے کہ عورتیں تعلیم حاصل کرکے آگے آئیں۔پروین کا کہنا ہے کہ اگر آج وہ سوشل ایکٹویسٹ نہ ہوتیں تو ایک آرٹسٹ ہوتیں اور اپنے آپکو اسی کے لئے وقف کرتیں ۔ انکا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کام کرتے ہوئے انہوں نے محسوس کیا ہے کہ خواتین کے لئے تعلیمی مواقع کم ہیں اسلئے وہ آگے نہیں آ پاتیں۔ بلوچستان میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں صحت کا مسئلہ بہت زیادہ ہے وہاں ڈاکٹرز، ہسپتال ، ٹیکنیشنز اور ادویات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر جسکی وجہ سے خواتین کو صحت کے معاملے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ پرعزم ہے کہ خواتین کی تعلیم و صحت پر کام کرے۔انکا کہنا ہے کہ ایک عورت کے لئے اس سماج میں اور جہاں وہ فیلڈ وزٹ کرتی ہے وہاں اسکے لئے مسائل کھڑے کر دیئے جاتے ہیں۔ اسے کمیونٹی کے ہزار سوال سننے پڑتی ہیں۔ جو اسکے لئے مسائل پیدا کرتی ہیں۔
بلوچستان کی خواتین بہت ہی باہمت ہیں۔ مسائل سے گھرا ہوا بلوچستان اور یہاں کی خواتین کے لئے دوگنے مسائل لیکن پھر بھی بلوچستانی یہ خواتین اپنی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔بلوچستان اسمبلی کی موجودہ اسپیکر راحیلہ درانی نے صحافت سے لیکروکالت اور اب سیاست کے میدان میں اپنے قدم جما لئے ہیں۔ مریم سلیمان کا تعلق گوادرسے ہے انہوں نے حال ہی میں ایک کتاب بھی لکھی ہے جبکہ وہ باہر کے ممالک کا وزٹ بھی کر چکی ہے۔ بانک فرازنہ مجید کا نام بھی ان خواتین کی لسٹ میں آتا ہے جو اپنی بھائی کا کیس لڑ رہی ہیں۔ جلیلہ حیدر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ سوشل ایکٹویسٹ ہیں خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ سائرہ عطاء کا تعلق آواران سے ہے وہ آجکل گورنمنٹ انڈسٹریز ڈیپارٹمنٹ میں بطور ڈائریکٹر کام کر رہی ہیں۔ شازیہ بتول ایک پینٹر ہیں اور کیا کمال کی پینٹنگ کرتی ہیں۔ اسی طرح فوزیہ لونی جو کہ پاؤں سے معذور ہیں لیکن کافی سرگرم خاتون ہیں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں اور آجکل سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں اپنا ایم فل کر رہی ہیں۔
غرض مواقع کی کمی اور سماجی قید و بند خواتین کا راستہ اس وقت تک نہیں روکتیں جب تک وہ خود ہمت نہ ہارے اور سماجی قید و بند سے اپنے آپکو آزاد نہ کر لے یہاں پر ہم نے بلوچستان کی چند باہمت خواتین کی حالات زندگی کا مختصر سا خاکہ پیش کیا جو اس وقت سماج میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ ہمارے اس مضمون کا بنیادی مقصد ان خواتین کا کردار آگے لانا تھا جنہوں نے بلند حوصلوں سے مشکلات کا سامنے کرکے اپنے لئے ایک مقام بنایا تاکہ وہ خواتین جو سماج کے لئے کام کرنا چاہتی ہیں انہیں آگے آنے کا موقع ملا۔بلوچستان کی ایسی ہزاروں خواتین ہوں گی جو کہیں نہ کہیں خدمات سرانجام دے رہی ہوں گی۔ اپنی تیئیں چھوٹے یا بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہیں۔ جنکا ذکر اس ایک مضمون میں لانا بس کی بات نہیں۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے