اگر ہم معاصر سرائیکی شاعری پر غور کریں تو جو دو تین بڑے شاعر نظر آتے ہیں احمد خاں طارق ان میں سے ایک ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ بڑا اور مانا ہوا شاعر کون ہوتا ہے؟اس کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔ شاعرانہ اور فنکارانہ عظمت کسی سائنس دان یا گارے مٹی سے دیواریں اٹھانے والے مستری کی فنکاری جیسی نہیں ہوتی بلکہ یہ عظمت فنی ، فکری اور ادبی شعور کے ساتھ ساتھ ذوق سلیم کی دولت کے باعث کسی بھی فنکار کا اثاثہ ہوتی ہے۔ اگر شاعر جمالیاتی لطافتوں کی رفاقت میں عمرانی تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی شعور بھی من میں رکھتا ہو تو اس کی عظمت کے سفر کا آغاز ہو گا۔ مگر یہ سفر آغاز ہوگا انتہا اور تکمیل نہ ہو گی۔ پھر عظمت کیسے حاصل ہو گی ؟ اس کے لیے شاعر کو اپنی ’’ ڈکشن ‘‘ الگ بنانی پڑے گی اور یہ ڈکشن چلتے پھرتے نہیں بن جاتی بلکہ اپنے پیچھے بڑی فنی ریاضت اور شاعرانہ ترفع کی متقاضی ہوتی ہے۔ کہا جاتاہے کہ ہر خیال اپنا پیرایہ ساتھ لے کر آتا ہے ۔ جیسا خیال ہو گا ویسا ہی پیرایہ ہو گا۔ اس خیال اور پیرائے کے ملاپ سے لفظ اپنی پوری ماہیت کیساتھ ’’ خیال ‘‘ کو قاری تک پہنچاتے ہیں۔ احمد خاں طارق کا شعری پیرایہ اس بات کی عمدہ مثال ہے۔
احمد خان طارقؔ کا جم پل سندھ اور سانگھڑ کے علاقہ میں ہوا ۔ پہاڑوں کی عظمت اور سند ھ کی وسعت اور گہرائی کی طرح طارق کی شاعری اپنی ڈکشن اور آواز کی وجہ سے جانی پہچانی جاتی ہے ۔ انہوں نے سرائیکی میں نظمیہ اور غزلیہ شاعری بھی کی ہو گی مگر ڈوہڑا ان کی پہچان بنا۔ڈوہڑا اور کافی سرائیکی وسیب کی قدیم اصناف ہیں ان کا گہرا تاثر مونجھ ، اداسی اور وہ ’’ نمانتا‘‘ ہے جو وسیب کی مجموعی پہچان بنتی ہے۔ سرائیکی وسیب کا یہ فخر ہے کہ اس کا اپنا جغرافیہ، تاریخ، ثقافت ، تہذیب اور معاشرت کے ساتھ ساتھ اپنی زبان اور ادب ہے ۔ اس ادب میں ڈوہڑے اور کافی نے یہاں کے لوگوں کی ہر حوالے سے بھر پور ترجمانی کی ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ کافی اور ڈوہڑا ہی وادی سندھ کے لوگوں کے جذبات و احساسات کے اظہار کے بڑے ذریعے ہیں ، تو غلط نہ ہو گا۔
کہا جاتاہے کہ فنون لطیفہ ، آثار قدیم اور اساطیر کسی بھی قوم کی تاریخ اور وسیبی پہچان کے بنیادی مآ خذ ہو تے ہیں ۔ شاعری لوک ادب اور دوسرے بہت سے ایسے حوالے وسیب کو ہمیشہ زندہ جاوید رکھتے ہیں ۔ ہمارے وسیب کے جذبات و احساسات اور سماجی رویے بھی انہی مآخذ میں موجود ہیں ۔ احمد خان طارق کے ڈوہڑے ہمارے ’’ آج‘‘ کے بڑے ترجمان ہیں ۔ سرائیکی وسیب جس کے دکھوں کی تاریخ صدیوں کو محیط ہے اور ان دکھوں کا اظہار کافی اور ڈوہڑے میں زیادہ ہوا ہے ۔احمد خاں طارق نے اپنے شعری کینوس پہ وہ لفظ استعمال کئے ہیں جن کا مزاج حزینہ ہے تانگ ، مونجھ کی کہانیاں ہیں ۔ کہیں کہیں ان کے ڈوہڑے داستانوی رنگ میں ہیں ، کہیں اساطیرمیں ، کہیں لجنڈ اور کہیں رومانس کے پردے میں دل کو موہ لیتے ہیں ۔
لو ن جائی نس نے کہا تھا کہ بڑے اور عظیم ادب کی خاصیت ’’ ارفعیت ‘‘ ہے یہ Sublimityکاترجمہ ہے اس کا صحیح مفہوم انگریزی کے دو لفظوں سے ظاہر ہوا ہے پہلا Heightاور دوسرا Elevation،جس سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ اور ارفع ادب سامع اور قاری کو تخیل اور جذباتی تجربے کی بلندی پر لے جاتا ہے ۔ ایسے ادب کا خالق وہ ادیب ہوتا ہے جس کے خیالات عالی ہوتے ہیں ۔ جذبے کی شدت کے علاوہ اسے زبان و بیان کے استعمال پر ادیبانہ قدرت بھی حاصل ہوتی ہے اور ایسا ادب سامع اور قاری پر وجد وحال کی کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ احمد خان طارق کے ڈوہڑے لونجائی نس کے اس نظریے کی عمدہ مثال ہیں۔
احمد خاں طارقؔ کے ڈوہڑوں کی امتیازی خاصیت ایک یہ بھی ہے کہ ان کا تاثر بہت دیر پا اور گہرا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اچھا اور پیارا شعر وہ ہوتا ہے جسے بار بار پڑھا جائے اور ہر دفعہ پڑھنے پر نئے معنی اور مفہوم سامنے آئیں ۔اس تناظر میں احمد خان طارقؔ کے ڈوہڑے بار بار پڑھنے کی خاصیت رکھتے ہیں ان کی لفظیات اورساختیات وسیب کی اپنی زبان اور ثقافتی پہچان کے ساتھ سامنے آئی ہے ۔ وسیبی اور ثقافتی تلمیحات ،تشبیہات ،کنائے اور استعارے طارق ؔ کے شعری کینوس کو وسیع کرتے ہیں ۔ ان کے ڈوہڑے بعض اوقات ڈرامائی اسلوب کے ساتھ تخلیق ہوئے ہیں ، مکالماتی انداز میں ڈوہڑے کا آغاز اور اس کا کلائمکس ڈرامائی نظر آتے ہیں اور یہ انداز بے ساختگی کی بڑی لطیف مثال ہے ۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے جیسے طارقؔ اچانک خواب سے جاگ کر اپنا خواب سنانے لگے ہیں۔ایک ایک مصرع مصور کے رنگوں کی طرح لفظوں کی صورت سامنے آتا ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ تخلص کا استعمال بھی بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں ،قافیہ اور ردیف کا استعمال تو فنی حسن کی ایک اور حسین دلیل ہے ،یہ تمام پہلو ’’طارقؔ ‘‘ کو سرائیکی شاعری کا ’’خان‘‘بناتے ہیں۔
شاعری محض وزن اور بحر کا نام نہیں ، یہ تخلیق اور اختراع کا نام ہے ۔ احمد خان طارقؔ نے بھی شعر برائے شعر نہیں کہے اور نہ ہی محض اوزان اور بحروں کے ساتھ مقدار پوری کی ہے بلکہ تخلیق اور اختراع کی اعلیٰ منزل پر جاکر سرائیکی میں لاجواب دہڑے لکھے ہیں ۔ہم اپنی بحث کے آغاز میں یہ بات کہہ آئے ہیں کہ کافی اور دُہڑا سرائیکی وسیب کی اپنی اصناف ہیں اور وسیبی دکھوں کا بہترین اظہار انہی اصناف میں ہوا ہے ۔یہ بات سچ ہے کہ مونجھ، اداسی ، ہجر اور وچھوڑے کے جذبات سے جنم لیتے دکھ اور کرب کی روایت ہماری کافیوں اور دہڑوں میں موجود ہے ۔ طارقؔ کے دہڑے اس روایت کی کی توسیع ہیں ۔ انھوں نے رومانس کے پردے میں سرائیکیوں کے دکھوں کو نئے نئے رنگوں میں بیان کیا ہے ۔ یہاں سے لگتا ہے کہ طارقؔ صرف رومانس کے شاعر نہیں بلکہ انھیں اپنے وسیب کا تہذیبی، سماجی اور سیاسی شعور بھی حاصل ہے اور یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ وہ اس شعور کے اظہار میں لطافت، ترفع اورفنی حسن کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ نفیس پیرائے کو ہی اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ اپنے ہر خیال کے لیے نازک اور کومل لفظیات اپنی زنبیل میں محفوظ رکھتے ہیں اور اظہار کے موقع پر حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ معاصر سرائیکی دہڑا طارقؔ کی شناخت بنا ہے ۔ دہڑا نگاری تو بہت سے اور شعرا ء بھی کررہے ہیں پر طارقؔ بس ایک ہی ہے کیونکہ طارقؔ کے پاس لفظ ، خیال اور اسلوب اپنا اور نویکلا ہے پھر دہڑے کا مزاج اور طارقؔ کا مزاج بھی تو ایک ہی ہے ۔ سرائیکی وسیب کا ادبی،تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کافی اور دہڑا میں محفوظ ہے ،جیسا وسیب کا مزاج ہے اس کا بہترین اظہارانہی اصناف سے ہی ممکن ہے ،طارقؔ نے اس اظہار کو خوب نبھایا ہے ۔ جب تک وسیب موجود ہے تب تک دہڑا ہے اور جب تک طارقؔ کے دہڑے زندہ ہیں تب تک سرائیکی زبان کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ طارقؔ نے اپنے دہڑوں میں اپنے وسیب کو زندہ رکھنے کے تمام سامان جمع کررکھے ہیں ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے