دیکھنا
اپنے اونچے محلات کی
اونچی اونچی دیواروں کے اوپر لگی
خار دار باڑ کی گول عینک سے
اس پار کے چھت بہ سجدہ
گھر وندوں کی دیواروں کی خستگی
سننا
اپنے بنائے ہوئے سٹوڈیو میں
دھمک والے سپیکر زکی فل والیم میں
ہنی سِنگھ کے گانے چلا کر
زمیں سے نکلتی
فلک کے ستاروں بھرے گیٹ پر
دستکیں کوٹتی چیختی زندگی
سونگھنا
اپنی میلوں تلک
پھیلی بگھیا کی پگڈنڈیوں پر ٹہلتے ہوئے
ہاتھ میں تھامے پھولوں کے گلدستے کو
ناک نتھنوں کے اوپر جمائے ہوئے
دور افلاس کی نالیوں ، کچرہ دانوں سے اٹھتی
فضا باس سے بھرتی اور
سانس کو تنگ کرتی ہوئی گندگی
چکھنا
اپنی چمکتی سفید لینڈ کروزرکے
کالک لدے شیشوں اندر بنائے ہوئے
آنکھ کی پتلی جتنے سوراخوں سے
فٹ پاتھ پر بیٹھے میلے کچیلے سے بچوں
کے چہروں پرلکھی ہوئی
بھوک کی تشنگی
چھونا
اپنے دھلے، صاف، شفاف،
ہائی جینک
امپورٹڈ دستانے پہنے ہوئے
ہاتھوں سے
بستیوں سے خریدے ہوئے
نوجواں ماس اوپر جمی تیر گی
ہم کسی کی گواہی پر جاتے نہیں
جب تلک اپنی حسیات سے
سب کی حالت پر کھتے نہیں
تھک کے سوتے نہیں
کچھ بھی کھاتے نہیں
کیونکہ اپنے فرائض نبھانا ہے سب سے بڑی بندگی